نئی دہلی: راجستھان پولس نے نام نہاد گئو رکشکوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے پہلو خان کے کیس میں سبھی ملزمین کو کلین چٹ ضرور دے دی ہے لیکن اس ضمن میں گئو رکشا کے نام پر جاری پرتشدد وارداتوں کا تجزیہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ 8 سالوں میں گائے سے منسلک جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں سے 45 فیصد تو 2017 کی ہی ہیں۔ اور اگر گزشتہ 8 سالوں میں گئو رکشا پر ہونے والی وارداتوں کا جائزہ لیا جائے تو 97 فیصد معاملہ مرکز میں مودی حکومت کے بننے کے بعد کا ہے۔
Published: undefined
اس سال پہلا معاملہ اپریل 2017 کو سامنے آیا تھا جس میں ہریانہ کے رہنے والے پہلو خان کو نام نہاد گئو رکشکوں نے راجستھان کے الور ضلع میں بے رحمی سے پیٹا تھا جس سے ان کی موت ہو گئی تھی۔ پہلو خان قتل معاملے میں جب ملزمین کو کلین چٹ دیے جانے کی خبریں سامنے آئیں تو سماجی کارکنان نے پہلو خان کے گاؤں جانے کا منصوبہ بنایا لیکن ہندوتوا تنظیموں نے انھیں ایسا نہ کرنے کے لیے متنبہ کیا۔
Published: undefined
دراصل راجستھان کی سی آئی ڈی-سی بی نے الور پولس کو جو رپورٹ سونپی ہے اس میں پہلو خان قتل معاملے کے ملزم اوم یادو، حکم چند یادو، سدھیر یادو، جگمال یادو، راہل سینی اور نوین شرما کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ ان چھ میں سے تین ملزمین ہندوتوا تنظیموں سے منسلک ہیں۔ یہاں قابل ذکر یہ ہے کہ پہلو خان نے مرنے سے پہلے بیان میں ان سبھی لوگوں کے نام لیے تھے۔ یہ 6 ملزمین فرار تھے اور ان کے بارے میں اطلاع دینے کی صورت میں 5000 روپے کے انعام کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ لیکن سی آئی ڈی-سی بی کی رپورٹ کے بعد الور پولس نے اس انعام کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سی آئی ڈی-سی بی کی رپورٹ رتھ گئوشالہ کے اسٹاف کے بیان پر تیار کی گئی ہے۔ یہ گئوشالہ واردات کے مقام سے 4 کلو میٹر دور ہے۔
Published: undefined
’انڈیا اسپینڈ‘ کے ایک تجزیہ کے مطابق 2010 سے ستمبر 2017 تک گئو رکشا کے نام پر تشدد کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں سے 45 فیصد واقعات 2017 میں ہی ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں 53 فیصد مسلمان ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان واقعات میں جتنے بھی لوگ مارے گئے ان میں سے 87 فیصد مسلمان ہیں۔ تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ گئو رکشا کے نام پر سب سے زیادہ قتل مغربی بنگال اور اتر پردیش میں ہوئے ہیں۔
Published: undefined
یہ معاملہ بھی دلچسپ ہے کہ ان سبھی واقعات میں پولس نے 46 فیصد کیس متاثرین کے خلاف ہی درج کیا ہے۔ ’انڈیا اسپینڈ‘ نے انگریزی میڈیا میں موصول ہونے والی خبروں کے بعد کہا ہے کہ 2010 سے اب تک جتنی بھی واردات ہوئی ہیں اس کے علاوہ گئو رکشا کے نام پر ہوئےپرتشدد واقعات میں سے 52 فیصد بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں ہوئے ہیں۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined