قومی خبریں

مودی حکومت نے جس ہندوستان-یو اے ای اقتصادی شراکت داری معاہدہ پر دستخط کیا، وہ بے ضابطگیوں سے بھرپور: کانگریس

جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ ہند-یو اے ای معاہدہ سے متعلق تشویش ناک رپورٹ کے علاوہ اس سال جون سے ہم یو اے ای سے چاندی کی درآمدات میں چل رہی ایک بے حد مشتبہ کہانی کے بارے میں بھی سن رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>جئے رام رمیش / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

جئے رام رمیش / تصویر: آئی اے این ایس

 

کانگریس نے ہندوستان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے درمیان ہوئے اقتصادی شراکت داری معاہدہ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ ’’نان بایولوجیکل وزیر اعظم کی حکومت کے ذریعہ دستخط کیا گیا ہندوستان-یو اے ای اقتصادی شراکت داری معاہدہ (ای پی اے) بے ضابطگیوں سے بھرا ہے۔ اس معاہدہ میں ایک خامی ہے جو یہ مقرر کرتی ہے کہ وزن کے حساب سے 2 فیصد سے زائد پلاٹینم والے کسی بھی مرکب شئے کو پلاٹنینم الائے مانا جائے گا اور اسی حساب سے اس پر امپورٹ ڈیوٹی لگے گا۔‘‘

Published: undefined

جئے رام رمیش نے اس معاملے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک طویل پوسٹ کیا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ممبئی 2022 میں معاہدہ پر دستخط ہونے کے بعد سے ہندوستان نے 24 ہزار کروڑ روپے قیمت کے پلاٹنم مرکب شئے کی درآمد کی ہے۔ ٹیکس افسران کے داخلی ریکارڈ کا اندازہ ہے کہ اس میں 90 فیصد سے زائد حقیقی معنوں میں سونا ہے۔ جولائی 2024 تک سونے پر 18.45 فیصد کے فعال ٹیکس کے مقابلے پلاٹینم مرکب شئے پر امپورٹ ڈیوٹی 8.15 فیصد تھا۔ اس مرکب شئے کو سونے کی جگہ پلاٹینم کی شکل میں لازمی درجہ بندی کے سبب ہندوستان کو ریونیو میں کم از کم 1700 کروڑ روپے کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے۔‘‘

Published: undefined

کانگریس جنرل سکریٹری کا کہنا ہے کہ مالی نقصان کے علاوہ اس خامی نے ہندوستان کے ریگولیٹری بنیادی ڈھانچے کا مذاق بنا دیا ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں 3 پوائنٹس پیش کیے جو اس طرح ہیں:

  • وزیر مالیات نے جولائی 2024 میں اپنی بجٹ تقریر میں سونے پر ڈیوٹی کو کم کیا تھا۔ یہ جزوی طور سے اس خامی کو دور کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں حکومت کی اقتصادی پالیسی پر عمل یقینی کرنے کے لیے ایک معاہدہ پر بات چیت کی جگہ حکومت نے معاہدہ میں خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنے کے لیے اپنی پالیسی کو ایڈجسٹ کیا۔

  • پرائیویٹ کاروباریوں کو سونے کی درآمدات پر پابندی لگا دی گئی ہے (گفٹ سٹی کے ذریعہ سے کچھ استثنا معاملوں کو چھوڑ کر) لیکن وہ ریگولیشن کو درکنار کرنے کے لیے ای پی اے کے ذریعہ پیدا کی گئی اس خامی کا استعمال کرنے میں اہل ہیں۔

  • متحدہ عرب امارات خود سونے کا ایک اہم کانکن نہیں ہے۔ یہ شئے افریقہ سے درآمد کرتا ہے۔ جب تک یو اے ای میں قیمت میں اضافہ پروڈکٹ کی قیمت کا 3 فیصد ہے، سونا یا پلاٹینم ہندوستان-یو اے ای ’ای پی اے‘ کے ذریعہ کور کیا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یو اے ای کے ذریعہ سے سونے کی درآمد کے راستہ سے ہمارا سونا درآمدات کا مکمل ریگولیشن نظام کمزور ہو رہا ہے۔

Published: undefined

جئے رام رمیش اپنے پوسٹ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’یہ ہندوستان-یو اے ای کے درمیان اقتصادی شراکت داری معاہدہ سے آنے والی واحد تشویش ناک رپورٹ نہیں ہے۔ اس سال جون سے ہم متحدہ عرب امارات سے چاندی کی درآمدات میں چل رہی ایک انتہائی مشتبہ کہانی کے بارے میں بھی سن رہے ہیں۔‘‘ کانگریس لیڈر نے اس کے بعد مزید 4 نکات پیش کیے ہیں، جو اس طرح ہیں:

  • جنوری-اپریل 2023 کے دوران متحدہ عرب امارات سے ہندوستان میں چاندی کی درآمد 2.2 ملین ڈالر تھی۔ جنوری-اپریل 2024 میں زبردست اچھال کے ساتھ یہ 1.44 بلین ڈالر ہو گئی۔ یہ ایک سال میں 647 گنا اضافہ ہے۔

  • متحدہ عرب امارات راتوں رات ہندوستان کی چاندی درآمدات (کُل کا 45 فیصد) کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا، جبکہ اس مدت میں چاندی کی درآمدات 10 گنا بڑھ گئی ہے۔

  • متحدہ عرب امارات بھی چاندی کی زیادہ کانکنی نہیں کرتا ہے۔ یہ چاندی کے بار کی درآمد کرتا ہے اور انھیں چاندی کے دانوں میں تبدیل کرتا ہے۔ ایک ایسا طریقہ جس میں عام طور پر صرف 1 فیصد ویلو ایڈیشن (قدر میں اضافہ) ہوتا ہے (اور اس لیے اسے ای پی اے سے چھوٹ دی جانی چاہیے جس کے لیے 3 فیصد ویلیو ایڈیشن کی ضرورت ہوتی ہے)۔ حالانکہ چاندی کی بڑھتی درآمدات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت یو اے ای کے ذریعہ اس معاہدہ کے فعال ہونے کے موافق ریگولیشن کو یقینی بنانے میں کامیاب رہی ہے۔

  • ای پی اے نافذ ہونے کے بعد سے گفٹ سٹی نے ہندوستان کی چاندی برآمدات پر اجارہ داری حاصل کر لی ہے۔ گفٹ سٹی ایکسچینج پرائیویٹ کاروباریوں کو رجسٹر کرتا ہے ارو ملک کے باقی حصوں میں سونے و چاندی کے لیے عام درآمدات ڈھانچہ کے مقابلے میں کم ریگولیشن دیکھتا ہے۔ اس لیے 3 فیصد ویلیو ایڈیشن کی ہیرا پھیری خصوصی طور سے گفٹ سٹی کے ذریعہ سے کی جا سکتی ہے۔

Published: undefined

کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ ای پی اے کے لیے بات چیت اور اس کی فعالیت پر اب کئی طرح کے سوال سامنے آ رہے ہیں۔ کانگریس لیڈر اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں 3 سوال سامنے بھی رکھتے ہیں، جو اس طرح ہیں:

  1. وزیر برائے کامرس نے کاروباری معاہدہ کے لیے بیشتر بات چیت کی قیادت کی اور 88 دنوں کی ’ریکارڈ مدت‘ میں معاہدہ کو پورا کیا۔ کیا اتنے اہم معاہدہ کو آخری شکل دینے میں کی گئی ضروری جلدبازی کے نتیجہ کار یہ خامیاں پیدا ہوئی ہیں؟

  2. رپورٹس، جس میں گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹیو کی ایک رپورٹ بھی شامل ہے، نے حکومت کو تنبیہ دی تھی کہ ہندوستان-یو اے ای اقتصادی شراکت داری معاہدہ ہندوستان کے سونے، چاندی اور پلاٹینم صنعت پر قہر برپا کر سکتا ہے۔ کیا حکومت نے اس معاہدہ کو آگے بڑھانے کے لیے قصداً ایسی فکر کو نظر انداز کیا؟

  3. کیا گفٹ سٹی کو سرکاری ریگولیشن اور جانچ سے چھوٹ حاصل ہے؟ متحدہ عرب امارات سے چاندی اور ٹیرف-اسکپنگ ’پلاٹینم مرکب شئے‘ کے بڑے پیمانے پر درآمدات کو کامیاب بنانے میں گفٹ سٹی کاروباریوں کا کیا کردار ہے؟ کیا ان کھلاڑیوں کو خصوصی سیکورٹی دی جا رہی ہے؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined