مرکز میں مودی حکومت تشکیل پانے کے بعد سے ملک میں جمہوری اقدار کا زوال لگاتار جاری ہے، عدم اتفاق کی آوازوں کو خاموش کیا جا رہا ہے، اقلیتی طبقہ کو دبایا جا رہا ہے اور سیاسی مذاکروں کا معیار گرتا ہی جا رہا ہے۔ اس طرح کی باتیں مختلف تحقیقوں میں سامنے آتی رہی ہیں اور اب ایک بار پھر ہندوستان میں جمہوریت پر منڈلاتے کالے بادل پر ایک بین الاقوامی ادارہ نے تشویش ظاہر کی ہے۔ دراصل برطانوی رسالہ ’اکونومسٹ‘ کے انٹلیجنس یونٹ نے درجنوں ممالک میں موجود ’جمہوریت کے معیار‘ پر مبنی ایک تازہ فہرست جاری کی ہے جس میں گزشتہ سالوں کے مقابلے ہندوستان کی حالت ابتر ہوئی ہے۔ مودی حکومت میں جمہوریت پر ہو رہے حملے کو ’اکونومسٹ‘ کی رپورٹ صحیح ثابت کرتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2014 میں جو ہندوستان 27ویں مقام پر تھا وہ 14 مقام کھسک کر 2018 میں 41ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔
دراصل ’اکونومسٹ‘ کی انٹلیجنس یونٹ کئی سالوں سے دنیا کے اہم ممالک میں موجود جمہوریت پر مبنی فہرست جاری کرتی رہی ہے اور اس بار کی فہرست کے مطابق ہندوستان میں جمہوریت کا معیار بہت گر گیا ہے۔ تازہ رپورٹ میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کو کاروباری لوگوں کی حمایت مل رہی ہے لیکن مودی غیر مفتوح نہیں ہیں۔ دیہی معیشت کو نظر انداز کرنے کے سبب کسانوں کو تحریک چلانے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ ملازمتوں کے شعبہ میں ناکامی اور تنظیمی اصلاح میں دھیمے پن والا ماحول رہا۔ جو اصلاحی قدم اٹھائے گئے ان کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا۔‘‘ رپورٹ میں توصاف صاف یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ ’’اب تک مودی تنقید سے بچتے رہے ہیں لیکن ان کی پارٹی بی جے پی 2019 کا انتخاب ریاستی سطح پر کمزور سیاسی زمین پر لڑے گی۔ کئی چھوٹی پارٹیوں کی حمایت کھو چکی بی جے پی لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہ سکتی ہے۔‘‘ ان جملوں سے ظاہر ہے کہ مودی حکومت کی بین الاقوامی سطح پر کیا شبیہ بنی ہے اور کس طرح ہندوستان کی شبیہ کو بی جے پی حکومت نے دنیا بھر میں داغدار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’’برسراقتدار این ڈی اے اسمبلی انتخابات میں اپنی ساکھ بچانے میں جدوجہد کرتی ہوئی نظر آئی، دراصل ایک طرح سے یہ ملک کے جمہوری اداروں کی طاقت کا مظاہرہ ہے جس کے سبب تمام تقسیم کرنے والی پالیسیاں اختیار کرنے کے باوجود مرکزی حکومت کو مایوسی ہاتھ لگی۔‘‘
جہاں تک ’دی اکونومسٹ انٹلیجنس یونٹ‘ کی فہرست سازی کا سوال ہے، تو اس نے سبھی ممالک کو چار درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ چار درجات ہیں مکمل جمہوریت، جزوی جمہوریت، نیم جمہوریت اور مطلق العنانیت۔ مودی حکومت کے برسراقتدار آنے سے قبل یعنی 2014 میں ہندوستان کو مجموعی فہرست میں 27واں مقام اور جزوی جمہوریت کے درجہ میں تیسرا مقام حاصل تھا جو کہ 2016 میں گر کر مجموعی فہرست میں 32واں اور جزوی جمہوریت کے درجہ میں 13ویں مقام پر پہنچ گیا۔ 2018 میں حالت مزید خراب ہوئی اور مجموعی فہرست میں یہ 41ویں مقام پر اور جزوی جمہوریت کے درجہ میں 21ویں مقام تک کھسک گیا۔ حاصل اسکور کی بات کی جائے تو 2014 میں ہندوستان نے 7.92 پوائنٹ حاصل کیے تھے جو کہ 2016 میں گھٹ کر 7.81 ہو گئے اور پھر 2018 میں مزید گھٹتے ہوئے 7.23 پر پہنچ گیا۔
Published: 19 Jan 2019, 11:09 AM IST
یہاں قابل غور ہے کہ رینکنگ کی بنیاد 60 پیمانوں کو بنایا جاتا ہے جن میں ایک دوسرے سے جڑے پانچ درجات ہیں۔ مثلاً انتخابی عمل اور اکثریت پسندی، شہری آزادی، حکومت کی کارگزاری، سیاسی شراکت داری اور سیاسی مذاکرہ یا کلچر۔ ہر درجہ میں صفر سے 10 پوائنٹ ہوتے ہیں اور آخر میں سبھی درجات میں حاصل اسکور کا اوسط نکالا جاتا ہے۔
انتخابی عمل اور اکثریت پسندی کے معاملہ میں ہندوستان کا تازہ اسکور 9.17 ہے جب کہ 2014 اور 2016 میں یہ 9.58 تھا۔ اسی طرح سرکاری کارگزاری کے معاملہ میں ہندوستان کا اسکور 2014 میں 7.14 تھا جو 2016 میں بڑھ کر 7.50 ہوا اور پھر 2018 میں بے حد خراب کارکردگی پیش کرتے ہوئے 6.79 تک گر گیا۔ سیاسی شراکت داری کے معاملہ میں بھی مودی حکومت کی کارکردگی خراب ہوئی ہے اور 2018 میں اسے محض 7.22 اسکور حاصل ہوئے ہیں۔ سیاسی مذاکرہ اور کلچر کے شعبہ میں بھی کوئی بہتری ہونے کی جگہ ابتری ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہندوستان نے سب سے زیادہ خراب کارکردگی جس محاذ پر کی ہے وہ سول لبرٹیز یعنی شہری آزادی ہے۔ اس معاملے میں مودی حکومت کا حال بہت برا رہا۔ 2014 میں سول لبرٹیز کے معاملے میں ہندوستان کا اسکور 9.41 تھا جو 2016 میں گر کر 9.12 ہو گیا اور 2018 میں تو 7.35 تک پہنچ گیا۔
بہر حال، ڈیموکریسی انڈیکس میں ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ اور ڈنمارک سرفہرست ہیں۔ ان ممالک کو مکمل جمہوریت کے خانہ میں رکھا گیا ہے کیونکہ ان کا اوسط اسکور 9.22 ہے جو کہ مکمل جمہوریت کے لیے ضروری 8.2 کے اسکور سے بہت زیادہ ہے۔ اس فہرست میں امریکہ کو 7.96 اسکور کے ساتھ جزوی جمہوریت کے درجہ میں رکھا گیا ہے۔
Published: 19 Jan 2019, 11:09 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Jan 2019, 11:09 AM IST