میگھالیہ ہائی کورٹ کے ایک جج کے ذریعہ ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنائے جانے کا متنازعہ بیان دیا گیا ہے۔ انھوں نے ایک کیس کی سماعت کے بعد مودی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں قانون بنائے۔ بیان جسٹس ایس آر سین نے دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ہندوستان اسلامی ملک بن سکتا ہے اور مودی حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہیے جو ایسا ہونے سے روکے۔ انھوں نے مودی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور میانمار جیسے پڑوسی ممالک میں رہنے والے غیر مسلم طبقات اور گروپ کو ہندوستان میں آ کر بسنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ اس ملک کو اسلامی ملک بننے سے بچایا جا سکے۔
جسٹس ایس آر سین نے اپنے بیان میں واضح لفظوں میں یہ بھی کہا کہ ’’میں صاف کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش نہ کرے۔ اگر یہ اسلامی ملک ہو گیا تو ہندوستان اور دنیا میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ مودی حکومت کو اس کے لیے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘ مسٹر سین کے اس بیان کے بعد کافی ہلچل ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عموماً معزز جج کیس سے الگ ہٹ کر مفاد عامہ میں کچھ بیانات دیتے ہیں لیکن اس کو کیس میں رخنہ انداز نہ مانتے ہوئے نظر انداز ہی کر دیا جاتا ہے۔ ججوں کے یہ بیانات اکثر مثبت پہلو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ایسا غالباً پہلی بار ہوا ہے جب کسی جج نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائے جانے کی اپیل کی ہو۔
ذرائع کے مطابق جسٹس ایس آر سین جس کیس کی سماعت کر رہے تھے اس کا تعلق ہندو راشٹر یا اسلامی ملک سے نہیں تھا اس لیے ان کے بیان پر لوگ حیران ہیں۔ وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ سے منع کیے جانے پر امن رانا نامی ایک شخص کے ذریعہ داخل عرضی پر سماعت کر رہے تھے۔ اس کیس پر انھوں نے 37 صفحات پر مبنی فیصلہ سنایا جس کی کاپی گزشتہ منگل کو دستیاب ہوئی۔ اس کیس پر فیصلہ سنائے جانے کے بعد انھوں نے اپنے ایک بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے پیش رفت کرنے کی گزارش کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے پورا بھروسہ ہے کہ مودی حکومت معاملے کی سنگینی کو سمجھے گی اور ضروری قدم اٹھائے گی اور ہماری وزیر اعلیٰ ممتا جی ملکی مفاد میں ہر طرح سے اس کی حمایت کریں گی۔‘‘
Published: 13 Dec 2018, 12:05 PM IST
اپنے بیان میں جسٹس سین نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت اسے ہندو راشٹر نہ بنائے جانے پر مایوسی ظاہر کی۔ ’بار اینڈ بنچ‘ کی ایک خبر کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ’’تقسیم کے وقت ہی ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا جانا چاہیے تھا لیکن یہ جمہوری ملک بنا رہا۔‘‘ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’میں ہندوستان میں بسے پرامن مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں۔ میں اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے خلاف نہیں ہوں جو ہندوستان میں کئی نسلوں سے مقیم ہیں اور یہاں کے قانون پر عمل کرتے ہیں۔ انھیں یہاں امن سے رہنے دیا جانا چاہیے۔‘‘
جسٹس سین کے اس بیان پر بھی کچھ لوگ حیران ہیں کہ وہ پہلے ہندوستانی ہیں اور پھر اچھے انسان۔ دراصل جسٹس سین نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہندوستان کے قانون اور آئین کی مخالفت کرنے والے کسی شخص کو ہندوستان کا شہری نہیں مانا جا سکتا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلے ہم ہندوستانی ہیں اور پھر اچھے انسان۔ جس طبقہ سے ہم تعلق رکھتے ہیں، وہ اس کے بعد آتا ہے۔‘‘
Published: 13 Dec 2018, 12:05 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Dec 2018, 12:05 PM IST