ہماری جمہوریت کمال کی ہے، جو وزیراعظم کی خوشامد اور تصویروں پر منحصر ہے۔ رعایا ہر وقت غائب رہتی ہے اور اب تو مستفیضین کا وقت ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم ملک کا وزیر اعظم ہے یا کسی پارٹی کا اسٹار کمپینر! وزیر اعظم اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے اس قدر فکر مند ہیں کہ وہ عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ یوکرین میں پھنسے ہندوستانی طلبا جب پانچ دن تک جنگ کی ہولناکیوں کا سامنا کر چکے تو مودی جی زندہ باد کے نعروں کے ساتھ انہیں ہندوستان واپس لانے کا کام صرف شروع ہی نہیں کیا گیا بلکہ پوری حکومت نے مودی جی اور آمر پوتن کی قربت کی تشہیر میں مصروف ہو گئی۔
Published: undefined
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ حکومت نے عوام کو داؤ پر لگا کر صرف تالیاں بجانے میں تاخیر کی ہو۔ یاد کیجئے کورونا کی دوسری لہر وقت، جب ہر گھر میں لوگ مر رہے تھے، لوگ آکسیجن کے لیے تڑپ رہے تھے، اسپتالوں میں کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس دوران مودی جی خاموش رہے لیکن جیسے ہی حالات بہتر ہوئے آکسیجن سپلائی کی کوئی کمی نہیں تھی ملاقاتوں کا دور شروع ہوا اور پھر عوام کے سامنے خود کو مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ کورونا کی پہلی لہر کے دوران جب ہزاروں مہاجر مزدور پیدل ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر گئے، اس کے بعد مودی جی کی خصوصی ٹرینوں کا قافلہ شروع ہوا۔ جب ایک سالہ کسان تحریک کے دوران 700 سے زیادہ کسانوں کی موت ہوئی، اس کے بعد مودی جی زرعی قوانین کو واپس لے کر خود کو کسانوں کا مسیحا ثابت کرنے میں لگ گئے۔
Published: undefined
ہمارے ملک کے لوگ ایک عجیب نشے میں ڈوب چکے ہیں لیکن دنیا ہماری جمہوریت کا حال دیکھ اور سمجھ رہی ہے۔ ’فریڈم ہاؤس آف امریکہ‘ نے چند روز قبل ’فریڈم ان ورلڈ 2022‘ کے نام سے رپورٹ شائع کیا ہے۔ اس میں کل 195 ممالک میں جمہوریت کا تجزیہ کیا گیا ہے، جن میں سے ہندوستان سمیت 56 ممالک میں جزوی جمہوریت ہے۔ گزشتہ سال کی رپورٹ میں بھی ہندوستان کو جزوی جمہوریت قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان کو 100 میں سے کل 66 نمبر حاصل ہوئے ہیں، جبکہ سال 2021 کی رپورٹ میں 67 نمبر تھے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں سیاسی حقوق تو بہت ہیں لیکن شہری حقوق کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کو سیاسی حقوق کے تحت کل 40 نمبروں میں سے 33 نمبر حاصل ہوئے جبکہ شہری حقوق کے تحت کل 60 نمبروں میں سے صرف 33 نمبر حاصل ہوئے ہیں۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں سے دنیا میں جمہوریت خطرے میں ہے اور اقتدار پسند، قوم پرست اور آمرانہ حکمرانوں کا غلبہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دنیا میں مکمل طور پر آزاد ممالک کی تعداد 83 ہے جن میں دنیا کی 20.3 فیصد آبادی رہتی ہے۔ کل 56 ممالک میں جزوی جمہوریت ہے، جن میں 41.3 فیصد آبادی رہتی ہے اور 56 ممالک میں جمہوریت نہیں ہے، جہاں دنیا کی آبادی کا 38.4 فیصد موجود ہے۔ دنیا کی 80 فیصد آبادی ان ممالک میں رہتی ہے جہاں حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سال 2021 کے دوران دنیا کے 60 ممالک میں جمہوریت زوال پذیر ہوئی ہے، جبکہ 25 ممالک میں اس کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔
Published: undefined
دنیا بھر میں 2005 سے جمہوریت بری حالت میں ہے۔ سال 2005 میں دنیا کی 46 فیصد آبادی حقیقی جمہوریت میں تھی لیکن 2021 تک یہ آبادی کم ہو کر 20.3 فیصد رہ گئی۔ دوسری جانب سال 2005 میں دنیا کی آبادی کا صرف 17.9 فیصد ان ممالک میں تھا جہاں جزوی جمہوریت تھی لیکن اب یہ آبادی 41.3 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اسی رپورٹ میں انٹرنیٹ کی آزادی کے معاملے میں ہندوستان کو 100 میں سے صرف 49 نمبر دئے گئے ہیں اور اسے جزوی طور پر آزاد ممالک کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
Published: undefined
دوسری رپورٹ گلوبل اینالیسس 2021 کے مطابق گزشتہ سال کے دوران دنیا کے 35 ممالک میں 358 انسانی حقوق کے کارکنوں کو قتل کیا گیا اور ہمارا ملک مجموعی طور پر 23 قتل کے ساتھ چوتھے مقام پر ہے۔ یہ رپورٹ دو تنظیموں ’فرنٹ لائن ڈیفنڈرز‘ اور ’ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز میموریل‘ نے مشترکہ طور پر شائع کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے قتل کے حوالے سے گزشتہ سال کی تعداد ایک نیا ریکارڈ تھی، سال 2020 میں 25 ممالک میں مجموعی طور پر 331 کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نہ صرف قتل کے واقعات میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ایسے ممالک کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جہاں ایسے قتل ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی ہلاکتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ دنیا میں جمہوریت محدود ہونا اور سرمایہ داری کا وسیع ہوتا اثر و رسوخ ہے۔
Published: undefined
انسانی حقوق کے کارکنوں کے قتل کے حوالے سے سب سے زیادہ خوفناک ملک کولمبیا ہے جہاں گزشتہ سال 138 کارکن مارے گئے، اس کے بعد میکسیکو میں 42 اور پھر برازیل میں 27 قتل ہوئے۔ اس کے بعد 23 قتل کے ساتھ ہندوستان کا مقام آتا ہے۔ ہندوستان کے بعد افغانستان، فلپائن، ہنڈوراس، نکاراگوا، عوامی جمہوریہ کانگو، میانمار اور پاکستان کا مقام ہے۔ اس پوری فہرست سے اتنا واضح ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرناک جنوبی امریکہ اور جنوبی ایشیا ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں خطے قدرتی وسائل کے لحاظ سے امیر ترین ہیں اور سرمایہ دارانہ قوتیں ہمیشہ ان وسائل کو لوٹتی رہی ہیں۔ گزشتہ سال ہلاک ہونے والے 358 انسانی حقوق کے کارکنوں میں سے تقریباً 60 فیصد نے ماحولیات، جنگلات اور قبائلی طبقوں کے تحفظ کے لیے کام کیا۔ دنیا میں کل آبادی میں سے قبائلی آبادی صرف 6 فیصد ہے لیکن وہ انسانی حقوق کے کل ہلاک ہونے والے کارکنوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔ گزشتہ سال ہلاک ہونے والے انسانی حقوق کے کارکنوں میں خواتین کا حصہ 18 فیصد تھا، جبکہ 2020 میں یہ تعداد صرف 13 فیصد تھی۔
ظاہر ہے کہ جمہوریت کی پامالی کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، مظاہرین اور حکومت مخالفوں کے قتل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی ذمہ دار آمرانہ حکومتیں اور سرمایہ داری ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز