ملک بھر کے سیاسی ماہرین یہ سوچ کر حیرت میں ہیں کہ چند گھنٹوں کی نوٹس پر لاکھوں لوگ پنچایتوں میں کیسے اکٹھا ہو رہے ہیں۔ مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر، متھرا باغپت اور بجنور میں ایک ہفتہ میں ہوئی چار پنچایتوں میں اب تک لاکھوں لوگ جمع ہو چکے ہیں۔ کسی بھی پنچایت میں لوگوں کے جمع ہونے کی تعداد 30 ہزار سے کم نہیں رہی ہے۔ اب بھی پنچایتوں کا دور جاری ہے اور اگلے 15 دنوں میں 10 بڑی پنچایتوں کا اعلان ہو چکا ہے۔ ان سبھی پنچایتوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ ہے کسان تحریک۔ ان پنچایتوں میں یہ بات عام ہے کہ سبھی کا آغاز راکیش ٹکیت کے آنسوؤں کے تذکرہ سے ہوتا ہے اور دہلی میں کسانوں کی تحریک کی حمایت اور کروڑوں کی تعداد میں وہاں جمع ہونے کے عزم پر ختم ہوتی ہے۔
Published: undefined
کسان تحریک کے درمیان راکیش ٹکیت کے آنسوؤں سے گیلی ہوئی زمین کے بعد مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں کھاپ پنچایت کافی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ یہاں ہر ایک برادری کی ایک کھاپ ہے۔ کھاپ کو آپ بڑا کنبہ کہہ سکتے ہیں۔ پنچایت کا ایک سسٹم ہے جو گاؤں کے بزرگ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کسی بھی مسئلہ کا نمٹارا کرنے کے لیے یہ بزرگ اپنے درمیان سے پنچ منتخب کرتے ہیں اور پھر فیصلہ لیتے ہیں۔ جو پنچایت کا فیصلہ نہیں مانتا، اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے۔ حقہ پانی بند کرنے کا مطلب ہے کہ فیصلہ نہ ماننے کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
کھاپ پنچایتوں کے بارے میں تفصیل سے جانکاری رکھنے والے کسان لیڈر راجو اہلاوت بتاتے ہیں کہ ویسے تو سبھی 36 برادری میں کھاپ پنچایتوں کی بات ’لوہا لاٹ‘ مانی جاتی ہے لیکن جاٹ اور گوجروں میں ان کا سب سے زیادہ اثر ہے۔ خصوصاً ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں سماج سے جڑے مسئلوں میں کھاپ پنچایت کی رائے ہی سب سے اہم ہوتی ہے اور سماج اس پر عمل کرتا ہے۔ مظفر نگر کے دیوراج پنوار بتاتے ہیں کہ صرف جاٹوں کی ساڑھے تین ہزار کھاپ ہے۔ ان میں بالیان، دیشوال، گٹھوالا، لاٹیان، چوگالا، اہلاوت، بتیس کھاپ، کالکھنڈے، کلسیان، پچھادا جیسے کھاپ ہیں۔
Published: undefined
راکیش ٹکیت بالیان کھاپ سے ہیں۔ بالیان کھاپ کو مضبوط کرنے کا سہرا ان کے والد چودھری مہندر سنگھ ٹکیت کو بھی جاتا ہے۔ اب راکیش ٹکیت کے بڑے بھائی نریش ٹکیت اس کھاپ کے چودھری ہیں۔ مظفر نگر کی پنچایت میں جب نریش ٹکیت نے یہ کہا کہ انھوں نے اجیت سنگھ کو مظفر نگر انتخاب ہرا کر غلطی کی، تو یہ ایک بہت بڑا کھاپ پیغام تھا، جو اپنے آپ میں بہت مختلف تھا۔ عام طور پر کھاپ پنچایت سماجی اور حساس ایشوز پر سرگرم رہتی ہیں، لیکن 2013 کے مظفر نگر فسادات کے بعد سے جاٹ کھاپ پنچایت کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف ہونے لگا تھا مظفر نگر سے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر سنجیو بالیان کی حمایت اور چودھری اجیت سنگھ کی شکست کی بھی وجہ بالیان کھاپ کی یہی سیاست تھی۔ یہاں کے آر پی تومر بتاتے ہیں کہ عموماً کھاپ پنچایت سیاست سے دور رہتی ہے، اس کی یہ بھی وجہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر سیدھے سادے اور ایماندار لوگوں کے ذریعہ چلائی جاتی ہے۔ وہ سیاست کی تکڑم سے خود کو الگ رکھتے ہیں۔ 2013 میں کھاپ جذبات میں بہہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ نریش ٹکیت کو عوامی طور پر یہ کہنا پڑا کہ ان سے غلطی ہوئی۔
Published: undefined
کھاپ پنچایتوں کا اپنا ایک وسیع اثر ہے۔ جیسے بجنور میں 3 اراکین اسمبلی، کئی سابق وزرا اور خود جینت چودھری بھی کسانوں کے درمیان گھنٹوں زمین پر بیٹھے رہے۔ شاملی کے جتیندر ہڈا بتاتے ہیں کہ کوئی بھی لیڈر کھاپ چودھری سے بڑا نہیں ہے۔ وہ بڑے بزرگ ہیں، ان کی بات ٹالنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ کھاپ پنچایت کے پاس سب سے بڑی سزا بائیکاٹ کرنے کی ہے۔ ایک بار پنچایت کسی کا بائیکاٹ کر دے تو وہ اس فیملی کو بچے کی شادی کرنے تک بھاری پڑ جاتے ہیں۔
Published: undefined
جتیندر بتاتے ہیں کہ سماج میں اس سزا کے نام سے سہرن دوڑ جاتی ہے۔ جو سماج کی نظروں سے گر گیا، وہ کہیں کھڑا نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ کھاپ پنچایتوں کا ہی اثر ہے کہ مغربی اتر پردیش اور ہریانہ کے کئی گاؤں میں بی جے پی حکومت سے جڑے عوامی نمائندوں کے بائیکاٹ سے جڑے بینر ٹانگ دیے گئے اور وہ الگ تھلگ پڑ گئے۔
Published: undefined
30 جنوری کو مظفر نگر کی پنچایت میں جینت چودھری نے ’لوٹے میں نمک‘ ڈال دیا اور کسان تحریک کی مخالفت کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ یہاں موجود جٹ مجھیڑا کے کسان نیرج چودھری نے اس کی زوردار تائید کی۔ انھوں نے بتایا کہ ’لوٹے میں نمک‘ ڈالنے کا پنچایت میں کسی ایک ایشو کے لیے ایسی تجویز ڈالنا جس میں سب کا اتفاق ہو۔ اب ہم نے لوٹا میں نمک ڈال لیا ہے، یہ قسم ہے کہ ہم اب کسان مخالفین کو برداشت نہیں کریں گے۔
Published: undefined
کھاپ پنچایتوں کی ایک اور شناخت حقہ اور رنسنگھا ہے۔ بجنور میں حقے کے ساتھ کسان پنچایت میں شرکت کرنے پہنچے چودھری سورج پال ہو یا ہندوستانی کسان یونین کے اسٹیج پر 8 سال بعد پہنچے آنجہانی مہندر سنگھ ٹکیت کے سب سے قریبی 81 سالہ غلام محمد جولا، بات سب کی ایک ہے ’اَن داتا پر ظلم برداشت نہیں کریں گے‘۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز