احمد آباد: گجرات ہائی کورٹ نے بدھ کو باضابطہ طور پر ان چار پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کے الزامات عائد کر دیے ہیں جنہوں نے گزشتہ سال کھیڑا ضلع میں پانچ مسلم نوجوانوں کو سرعام زدوکوب کیا تھا۔ جسٹس اے ایس سوپہیا اور ایم آر مانگڈے کی ڈویژن بنچ نے کارروائی کے دوران باضابطہ طور پر الزامات عائد کئے گئے۔
Published: undefined
سماعت کے دوران الزامات کا سامنا کرنے والے پولیس افسروں میں سے ایک ڈی بی کماوت نے کہا کہ اس کا اس واقعے میں کوئی سرگرم عمل دخل نہیں ہے۔ تاہم جسٹس سوپہیا نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کماوت کی جائے وقوعہ پر موجودگی کو اجاگر کیا۔ جج نے نشاندہی کی کہ کماوت نے متاثرین کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی جب کہ انہیں عوام میں وحشیانہ مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔
Published: undefined
جسٹس سوپہیا نے کہا، ’’انہوں نے متاثرین کو بچانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جن کو عوام میں کوڑے مارے گئے اور بے دردی سے مارا گیا۔ انہوں نے کوڑے مارنے کی سزا کو روکنے کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا، جو کہ ایک غیر قانونی اور توہین آمیز عمل تھا۔ چونکہ ان کی موجودگی متنازعہ نہیں ہے، لہذا یہ واضح ہے کہ اس نے مذکورہ واقعے میں ایک فعال کردار ادا کیا تھا اور کوڑے مارے جانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔‘‘
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’تمام ویڈیوز کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ ویڈیوز عوام میں کھڑے چند لوگوں نے بنائی ہیں، جنہیں پولیس اہلکار یونیفارم میں کنٹرول کر رہے تھے۔‘‘ توہین عدالت الزامات کا سامنا کرنے والے چار پولیس افسران اے وی پرمار، ڈی بی کماوت، کناک سنگھ لکشمن سنگھ اور راجو رمیش بھائی ڈابھی ہیں۔
Published: undefined
ان پر ڈی کے باسو کیس میں گرفتاری سے متعلق سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ ہائی کورٹ نے ان افسران کو اپنے دفاع میں حلف نامہ داخل کرنے کے لیے 11 اکتوبر تک کا وقت دیا ہے۔ مزید برآں، سی جے ایم نے کہا کہ متاثرین اس واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کی شناخت کرنے سے قاصر تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined