ہندوستان کے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کا آفس بھی حق اطلاعات قانون (آر ٹی آئی) کے دائرہ میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں یہ نظام نافذ کیا ہے۔ اعلیٰ عدالت کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے ایک رائے سے یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سی جے آئی کا آفس آر ٹی آئی قانون کے تحت پبلک اتھارٹی یعنی عوامی ادارہ ہے اور یہ متعلقہ قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ آئینی بنچ نے کہا کہ آر ٹی آئی کے تحت جواب دہی سے شفافیت بڑھے گی، اس سے عدلیہ کی خود مختاری اور شفافیت مضبوط ہوگی، اس سے اس فکر کو مضبوطی ملے گی کہ آئین سے اوپر کوئی نہیں ہے۔
Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM IST
ویسے بھی یہ عام نظام ہے کہ آئین اور قانون کی کسوٹی پر ملک کے سبھی شہری اور مکمل نظام کو چلانے والا ہر ایک شخص برابر ہے خواہ وہ کتنے بھی اونچے عہدے پر یا ذی وقار کیوں نہ ہو لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ معاملات میں محض روایت کی وجہ سے کسی شخص یا عہدے کو لے کر الگ ہی رخ اپنایا جاتا ہے۔ جب ملک میں حق اطلاعات کا قانون نافذ ہوا تھا اسی وقت اس میں کچھ معاملوں کو چھوڑ کر یہ سب پر نافذ ہونے کا واضح نظام تھا یعنی کچھ خفیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ قومی سیکورٹی سے متعلقہ بے حد حساس معلومات کے علاوہ عموماً سبھی معاملات میں اطلاع دینی ہی ہوگی لیکن عدلیہ کے معاملے میں معاملہ صاف نہیں ہو پارہا تھا۔
Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM IST
حالانکہ دہلی ہائی کورٹ نے 2010 میں اس معاملے میں صاف طور پر کہا تھا کہ چیف جسٹس کا آفس حق اطلاعات کے قانون کے تحت آتا ہے اور عدلیہ کی آزادی کسی جج کا خصوصی اختیار نہیں ہے بلکہ انہیں اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اب آئینی بنچ نے اس فیصلے کو صحیح ٹھہرایا ہے۔ اپنے تازہ فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا آفس ایک پبلک اتھارٹی ہے، اس کے سبھی جج آر ٹی آئی کے دائرے میں آئیں گے۔ اس کے باوجود اس میں پہلے سے جاری رازداری برقرار رہے گی۔
Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM IST
آر ٹی آئی کی اہمیت ویسے بھی دنیا میں ظاہر ہے اور اس کے ذریعہ انتظامیہ میں شفافیت قائم کرنے سے لے کر رازداری کے نام پر چھپائی گئی جانکاریاں سامنے آتی رہی ہیں لیکن وقتاًفوقتاً کچھ ایسے بھی معاملات سامنے آتے رہے ہیں جب اطلاع اور پرائیویسی کے اصول کے درمیان ٹکراﺅ کے حالات بنتے نظر آئے۔ اس کے علاوہ گزشتہ کچھ برسوں میں ایسے سوال بھی اٹھے کہ کچھ معاملات میں آر ٹی آئی کو اوزار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے شاید اسی کے مدنظر عدالت نے خبردار کیا ہے کہ عدلیہ کے معاملے میں اگر آر ٹی آئی کے ذریعہ معلومات مانگی جاتی ہے تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے لیکن اس کا استعمال نگرانی رکھنے کے اوزار کے طور پر نہیں کیا جاسکتا اور شفافیت کے مسئلے پر غور کرتے وقت عدلیہ کی آزادی کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM IST
ججوں کی تقرری، ترقی اور تبادلے کے معاملے میں طریقہ کار کے سلسلے میں اطلاع دینے کے سوال کو بحث کا موضوع مانا گیا تھا۔ اس سلسلے میں آئینی بنچ نے کہا ہے کہ سی جی آئی آفس کو بتانا ہوگا کہ کولجیم کے ذریعہ ججوں کی تقرری کے لئے کن ناموں پر غور کیا گیا لیکن ناموں پر غور کے پیچھے کیا بنیاد تھی اس کی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ عدالت نے شفافیت کے مساوی پرائیویسی کے حق کو بھی ایک اہم بات مانا ہے اور چیف جسٹس کے آفس سے اطلاع دیتے وقت اس کے متوازن ہونے کی امید پر زور دیا ہے۔
Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM IST
آئینی بنچ میں شامل جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل-19 کے تحت نہ تو آر ٹی آئی اور نہ ہی پرائیویسی کا اختیار بغیر شرط ہے۔ سبھی جج اور سی جی آئی آئینی عہدہ سنبھالتے ہیں۔ وہیں جسٹس این وی رمن نے کہا کہ آر ٹی آئی قانون کی دفعہ-1 (جے) کے تحت دی گئی چھوٹ اطلاع کے حق اور پرائیویسی کے حق میں توازن بنانے کے لئے ہے۔ بہرحال اب کہا جارہا ہے کہ اس بے حد اہم مسئلے پر چھائی دھند صاف ہوسکے گی۔ یاد رہے اس وقت کے چیف جسٹس کے جی بالاکرشنن اطلاع کے حق قانون کے تحت ججوں سے متعلق اطلاعات کی جانکاری دینے کے حق میں نہیں تھے۔
(نواب علی اختر)
Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM IST
تصویر: پریس ریلیز