سوال: وزیر اعظم کے ذریعہ زرعی قوانین کی واپسی سے متعلق اچانک کیے گئے اعلان کو کیا آپ کسانوں کی ملک گیر احتجاجی مہم کے نظریہ سے مثبت تصور کرتے ہیں؟
اشوک دھولے: وزیر اعظم نے ان تین زرعی قوانین پر یو-ٹرن تو لیا، لیکن انھوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ یہ قوانین غلط تھے۔ یہ تینوں قوانین کسان مخالف، عوام مخالف اور کارپوریٹ حامی تھے۔ اس لیے یہ بے مثال کسان تحریک کی تاریخی جیت ہے اور اس کا پورے ہندوستان اور بیرون ممالک میں استقبال کیا گیا ہے۔
بی جے پی اگر سوچتی ہے کہ زرعی قوانین کی واپسی کے بعد وہ یو پی الیکشن جیت لے گی، تو وہ بہت ہی غلط سوچ رہی ہے، کیونکہ کئی ایسے ایشوز ہیں جو ہنوز حل طلب ہیں۔ ویسے بھی اتر پردیش کے کسان بی جے پی حکومت سے پریشان ہیں۔ دھان کے لیے ایم ایس پی فی کوئنٹل 1940 روپے ہے اور یو پی کے کسان صرف 1100 روپے فی کوئنٹل پا رہے ہیں۔ اس طرح ان کے ساتھ 840 روپے فی کوئنٹل کی دھوکہ دہی ہو رہی ہے۔ دوسری بات یو پی میں کالابازاری بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے جو کسانوں کے لیے پریشان کن ہے۔ اس لیے کسانوں نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا ہے۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ یو پی کے کسانوں کا پورا بجٹ اس وجہ سے گڑبڑا گیا ہے یہ ایشوز زرعی قوانین سے جڑے نہیں ہیں، لیکن عام لوگ، کسان اس حکومت کو لے کر پاگل ہو گئے ہیں۔ میں بہت اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ اگر مودی نے سوچا ہے کہ وہ لوگ زرعی قوانین کی واپسی کے بعد یو پی الیکشن جیت جائیں گے تو وہ بہت غلط سمجھ رہے ہیں۔
سوال: کھیتی کسانی ریاست کا موضوع ہے۔ ریاستی حکومتیں کس طرح اس جگہ کو بھر سکتی ہیں جو کھلی چھوڑ دی گئی ہیں۔ مثلاً کسانوں کی خودکشی کے معاملوں میں مہاراشٹر سب سے اوپر ہے، لیکن پہلے بھی ریاستی حکومتیں کسانوں کی مدد میں ناکام ہی رہتی رہی ہیں۔
اشوک دھولے: ہندوستان میں کسانوں کی خودکشی 94-1993 میں شروع ہوئی۔ اور این سی آر بی کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 1995 سے 2020 کے درمیان کے 25 سالوں میں چار لاکھ قرض متاثرہ کسانوں کو خودکشی کے لیے مجبور ہونا پڑا ان میں سے ایک لاکھ نے بی جے پی حکومت کے دوران خودکشی کی ہے اور لاکھوں کو اپنی زمین بیچنی پڑی ہے۔
1991 میں جدید پالیسیاں شروع ہونے کی وجہ سے تقریباً سبھی ریاستی حکومتیں پورے ہندوستان میں ان پالیسیوں پر عمل کر رہی ہیں۔ جدید پالیسیوں پر عمل درآمد کے فوراً بعد پورے ہندوستان میں کسانوں کی خودکشی کے معاملے بڑھ گئے اور اس جدید پالیسی میں تبدیلی کی امید تھی۔ اگر آپ حالات کو روکن چاہتے ہیں تو پالیسیوں میں تبدیلی ضروری ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ مرکزی حکومت بیشر فنڈس اور اسکیموں پر کنٹرول کرتی ہے۔
سوال: بہار نے 2006 میں زرعی بازار بورڈ کو ختم کر دیا جب کہ کیرالہ نے سبزیوں تک کو بھی ایم ایس پی میں شامل کر لیا۔ ان دو ریاستوں سے کیا سبق لیتے ہیں؟
اشوک دھولے: ریاستوں ے درمیان بہار کا منظرنامہ سب سے خراب ہے۔ وہاں دھان کی ایم ایس پی 1940 روپے فی کوئنٹل ہے جب کہ کسان 800 روپے فی کوئنٹل وصول کر پا رہے ہیں، کیونکہ ریاست میں کوئی منڈی نہیں ہے۔ بہار کے کسان یو پی سے بھی کم ایم ایس پی پاتے ہیں۔
کیرالہ میں شروع سے ہی اے پی ایم سی قانون نہیں ہے کیونکہ ریاست کی زراعت نقدی فصلوں پر مبنی ہے۔ دھان کے لیے کیرالہ حکومت 2850 روپے فی کوئنٹل دے رہی ہے جو ایم ایس پی سے 900 روپے زیادہ ہے۔ یہ ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے اور یہ سیاسی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔ زراعت کو لے کر ریاستی حکومت کے حدود کے باوجود کئی چیزیں کی جا سکتی ہیں۔
(بشکریہ ’نوجیون انڈیا ڈاٹ کام‘)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز