لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی اس وقت امریکہ کے دورہ پر ہیں۔ وہاں ریزرویشن سے متعلق ان کے ایک بیان پر بی جے پی لیڈران حملہ آور دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اب راہل گاندھی نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے مخالفین پر جوابی حملہ کیا ہے۔ انھوں نے 11 ستمبر کو ایک انٹرویو کے دوران واضح کیا کہ وہ ریزرویشن کے خلاف نہیں ہیں، اور ریزرویشن کی 50 فیصد کی حد کو ختم کرنے کے حمایتی ہیں۔ انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے، ان کی پارٹی تو ریزرویشن کو 50 فیصد کی حد سے آگے لے جائے گی۔
Published: undefined
راہل گاندھی نے امریکہ میں نیشنل پریس کلب میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’کل کسی نے میرے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا کہ میں ریزرویشن کے خلاف ہوں۔ لیکن میں یہ واضح کر دوں کہ میں ریزرویشن کے خلاف نہیں ہوں۔ ہم ریزرویشن کو 50 فیصد کی حد سے آگے لے جائیں گے۔‘‘ راہل گاندھی کے جس تبصرہ نے تنازعہ کو جنم دیا، وہ واشنگٹن ڈی سی میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے طلبا و اساتذہ کے ساتھ بات چیت کے دوران کل دیا گیا تھا۔ تب راہل گاندھی نے کہا تھا کہ کانگریس پارٹی ریزرویشن ختم کرنے کے بارے میں تبھی سوچے گی، جب ہندوستان میں ریزرویشن کے لحاظ سے غیر جانبداری ہوگی اور فی الحال ایسا نہیں ہے۔
Published: undefined
راہل گاندھی کا یہ تبصرہ مشہور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں طلبا کے سوال پر کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے طلبا نے راہل گاندھی سے ریزرویشن کو لے کر سوال کیا تھا کہ یہ کب تک جاری رہے گا۔ اس پر انھوں نے کہا کہ ’’جب ہندوستان میں (ریزرویشن کے لحاظ سے) غیر جانبداری ہوگی، تب ہم ریزرویشن ختم کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔ ابھی ہندوستان اس کے لیے ایک غیر جانبدار جگہ نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’جب آپ مالیاتی اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں تو قبائلیوں کو 100 روپے میں سے 10 پیسے ملتے ہیں۔ دلتوں کو 100 روپے میں سے 5 روپے ملتے ہیں اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لوگوں کو بھی تقریباً اتنے ہی پیسے ملتے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ انھیں مناسب شراکت داری نہیں مل رہی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’’مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کی 90 فیصد آبادی شراکت داری کرنے میں اہل نہیں ہے۔ ہندوستان کے ہر ایک ’بزنس لیڈر‘ کی فہرست دیکھیں۔ میں نے ایسا کیا ہے۔ مجھے قبائلی نام دکھاؤ۔ مجھے دلت نام دکھاؤ۔ مجھے او بی سی نام دکھاؤ۔ مجھے لگتا ہے کہ سرکردہ 200 میں سے ایک او بی سی ہے۔ حالانکہ وہ ہندوستان کی آبادی کا 50 فیصد ہیں۔ لیکن ہم بیماری کا علاج نہیں کر رہے ہیں۔‘‘ آخر میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’یہی مسئلہ ہے۔ اب، یہ (ریزرویشن) واحد وسیلہ نہیں ہے، دیگر وسائل بھی ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined