سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اجیت پی شاہ اور دی ہندو کے سابق ایڈیٹر ان چیف این رام کی طرف سے دی گئی دعوت کو راہل گاندھی نے قبول کر لیا ہے۔ تینوں شخصیات نے گزشتہ روز راہل گاندھی اور نریندر مودی کو کھلی بحث سے متعلق دعوت نامہ بھیجا تھا۔ اس دعوت نامہ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں یقین ہے عوامی بحث کے ذریعے ہمارے سیاسی لیڈروں کو براہ راست سننے سے شہریوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ اس سے ہمارے جمہوری عمل کو نمایاں طور پر مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
Published: undefined
پی ایم مودی سے بحث کے لیے اس دعوت نامہ کو سابق کانگریس صدر راہل گاندھی نے بخوشی قبول کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ایم مودی اس مباحثہ کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ راہل گاندھی نے لکھنؤ کی ایک تقریب میں مباحثہ سے معتلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بیان دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں 100 فیصد کسی بھی پلیٹ فارم پر وزیر اعظم سے ’عوامی ایشوز‘ پر مباحثہ کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن میں انھیں جانتا ہوں، وہ 100 فیصد مجھ سے مباحثہ نہیں کریں گے۔‘‘
Published: undefined
دراصل ایک شخص نے راہل گاندھی سے سوال کیا تھا کہ ججوں نے وزیر اعظم اور آپ کے درمیان مباحثہ کے تعلق سے ایک خط لکھا ہے، ایسے میں کیا آپ اسے قبول کریں گے؟ راہل گاندھی نے اس کا جواب دیتے ہوئے نہ صرف اپنی رضامندی ظاہر کی، بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر وزیر اعظم میرے ساتھ مباحثہ نہیں کرنا چاہتے ہیں تو ہماری پارٹی کے صدر ملکارجن کھڑگے کے ساتھ مباحثہ کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج اے پی شاہ اور سینئر صحافی این رام کی جانب سے 9 مئی کو دونوں لیڈروں کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آپ نے مختلف حیثیتوں سے ملک کے تئیں اپنے فرائض ادا کیے ہیں۔ ہم آپ کے پاس ایک تجویز لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ یہ ہر شہری کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ 18ویں لوک سبھا کے عام انتخابات اپنے وسط میں پہنچ چکے ہیں۔ ریلیوں اور عوامی خطابات کے دوران حکمراں جماعت بی جے پی اور مرکزی اپوزیشن کانگریس دونوں کے ارکان نے ہماری آئینی جمہوریت کے بنیاد سے متعلق اہم سوالات کئے ہیں۔
Published: undefined
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے کانگریس کو ریزرویشن، آرٹیکل 370 اور ملکیت کی دوبارہ تقسیم سے متعلق عوامی طور پر چیلنج کیا ہے۔ دوسری طرف کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے وزیر اعظم سے آئین، انتخابی بانڈ اور چین کے تئیں حکومت کے ردعمل پر سوال اٹھائے ہیں اور انہیں عوامی بحث کے لیے چیلنج بھی کیا ہے۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے سے اپنے اپنے منشور کے ساتھ آئینی طور پر سماجی انصاف کے موقف پر سوالات پوچھے ہیں۔
Published: undefined
سرکردہ شخصیات نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ایک عوامی رکن کی حیثیت سے ہمیں تشویش ہے کہ ہم نے دونوں طرف سے صرف الزامات اور چیلنجز سنے ہیں اور کوئی معنی خیز جواب نہیں دیکھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، آج کی ڈیجیٹل دنیا غلط معلومات، غلط بیانی اور ہیرا پھیری سے بھری ہوئی ہے۔ ان حالات میں یہ یقینی بنانا بہت اہم ہے کہ عوام کو بحث کے تمام پہلوؤں کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہی ہو، تاکہ وہ بیلٹ باکس (ووٹنگ کے وقت) میں ایک بہتر متبادل کا انتخاب کر سکیں۔ یہ ہمارے انتخابی حق رائے دہی کے موثر استعمال میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
Published: undefined
خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں دونوں رہنماؤں (نریندر مودی اور راہل گاندھی) کی طرف سے ان مسائل پر عوامی بحث ہونی چاہیے جس سے عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ دونوں رہنماؤں کے خیالات کو براہ راست سن کر وہ خود فیصلہ کر سکیں گے کہ کس کی حمایت کرنی ہے۔ اس سے لوگوں کے سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوگا اور لوگ زیادہ معلومات کے ساتھ ووٹ ڈال سکیں گے۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں اور پوری دنیا ہمارے انتخابات پر گہری نظر رکھتی ہے۔ اس لیے ایسی عوامی بحث ایک بڑی نظیر قائم کرے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined