بہار میں شراب بندی قانون نافذ ہے۔ اس کے باوجود زہریلی شراب پینے سے اموات کے معاملے لگاتار سامنے آ رہے ہیں۔ بہار میں شراب بندی کے باوجود زہریلی شراب سے ہو رہی ان اموات پر اب سیاست تیز ہو گئی ہے۔ برسراقتدار طبقہ سے لے کر حزب مخالف طبقہ تک ان اموات پر نتیش حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے۔ کئی معاملوں میں انتظامیہ کھل کر بھلے ہی زہریلی شراب سے موت کی تصدیق نہیں کر پا رہی ہو، لیکن اہل خانہ موت کی وجہ شراب پینے کو ہی بتا رہے ہیں۔
Published: undefined
بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتہ میں گوپال گنج، بھاگلپور، سیوان سمیت دیگر اضلاع میں زہریلی شراب پینے سے 15 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔ اب اس تعلق سے حکومت میں شامل بی جے پی بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ بہار بی جے پی کے ریاستی نائب صدر راجیو رنجن نے بہار میں زہریلی شراب پینے سے ہو رہی اموات پر اظہارِ غم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو زہریلی شراب معاملے پر سخت قدم اٹھانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ شراب بندی کو لے کر حکومت کارگر قدم اٹھا رہی ہے لیکن گزشتہ کچھ مہینوں کے اندر زہریلی شراب پینے سے ریاست میں 60 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی۔ کسی بھی گھر سے کماؤ شوہر یا بیٹے کا وقت سے پہلے گزر جانا اس کنبہ کے لیے غمناک ہی نہیں سب کچھ اجڑنے جیسا ہے۔
Published: undefined
بی جے پی لیڈر نے کہا کہ فطری ہے کہ زیرلی شراب بن رہی ہے تبھی تو فروخت ہو رہی ہے، اور تب ہی لوگ اسے پی کر مر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو انتظامیہ کو سخت ہدایت دینی چاہیے تاکہ زہریلی شراب کی فروخت پر روک لگائی جا سکے اور غریبوں کے گھروں کو اجڑنے سے روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ زہریلی شراب سے جڑے معاملوں کو اسپیڈی ٹرائل میں لا کر قصورواروں کو سزا دلائی جائے، جس سے ایسے لوگوں میں خوف پیدا ہو۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے ریاستی صدر سنجے جیسوال اور سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی بھی شراب بندی پر عمل درآمد کو لے کر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ اِدھر آر جے ڈی بھی زہریلی شراب سے ہو رہیں اموات پر فکر کا اظہار کیا ہے۔ آر جے ڈی ترجمان مرتیونجے تیواری کہتے ہیں کہ شراب بندی پوری طرح ناکام ہے۔ حکومت صرف اپنا چہرہ چمکانے کے لیے شراب بندی کا ڈھکوسلا کر رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined