زکام، کھانسی، گلے کی سوزش اور بخار، یہ وہ علامتیں ہیں، جو ٹھنڈ لگنے سے بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آیا یہ کوئی بیکٹیریل یا پھر وائرل انفیکشن ہے۔ پہلی نظر میں کورونا وائرس اور ٹھنڈ لگنے کی علامات ایک جیسی ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ابتدائی طور پر کورونا وائرس سے متعلق مشکل بات یہی ہے کہ اس کی کوئی ایک بھی ایسی خاص نشانی نہیں ہے، جس سے یہ اندازہ ہو جائے کہ ٹھنڈ نہیں لگی بلکہ کورونا وائرس ہے۔ تاہم مندرجہ ذیل علامات ایسی ہیں کہ ان کے ظاہر ہونے پر آپ کو لازمی طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
Published: undefined
Published: undefined
Published: undefined
Published: undefined
Published: undefined
اگر سانس کی نالی کے اوپر (گلے میں) انفیکشن ہے تو یہ عام طور پر ٹھنڈ لگنے کی علامت ہے۔ اگر ناک بہہ رہی ہے اور ساتھ چھینکیں بھی آ رہی ہیں تو یہ ایک عام فلو ہے۔ کورونا وائرس سانس کی نالی کے نچلے (سینے کے اندر) حصے کو متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے متاثرہ مریضوں کو خشک کھانسی کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں پھیپھڑوں کی انفیکشن ہوتی ہے نہ کہ گلے کی انفیکشن۔
Published: undefined
Published: undefined
بہت سے مریضوں میں کورونا وائرس کی علامات بالکل عمومی تھیں اور یوں لگتا تھا کہ انہیں صرف ٹھنڈ لگی ہے۔ روبرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق کورونا وائرس 14 دن تک جسم میں رہ سکتا ہے اور اس کے بعد اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔
Published: undefined
اگر آپ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اور دل میں خوف بھی ہے تو ڈاکٹر کے پاس ضرور چیک اپ کے لیے جائیں۔ ڈاکٹر بلغم یا تھوک کا نمونہ لیبارٹری بھیج دے گا تا کہ اس حوالے سے حتمی نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔
Published: undefined
Published: undefined
منظر عام پر آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چین میں زیادہ تر افراد نے چہروں کو ماسک سے ڈھانپ رکھا ہے۔ کیا اس طرح کورونا وائرس سے بچاؤ ممکن ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
Published: undefined
کرونا وائرس اُڑ نہیں سکتا۔ یہ وائرس کسی مادے کے قطروں، رطوبت یا پھر رابطے سے ہی منتقل ہوتا ہے۔ بہتر احتیاط یہ ہے کہ متاثرہ افراد سے دوری اختیار کی جائے۔ اچھے طریقے سے صابن کے ساتھ ہاتھ دھوئے جائیں۔ اگر جراثیم کُش مائع موجود ہے تو اسے بھی ہاتھ پر لگایا جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز