مدھیہ پردیش کے ایک راج گھرانے سے آنے والے مقبول نوجوان لیڈر جیوترادتیہ سندھیا نے بدھ کو بی جے پی ہیڈکوارٹر میں پارٹی صدر جے پی نڈّا کی موجودگی میں بھگوا پارٹی کی رکنیت لے لی۔ اس دوران انھوں نے پی ایم مودی کی تعریف کرتے ہوئے خود کے بی جے پی میں شالم ہونے کا اعلان کیا۔ اس دوران سندھیا نے پی ایم مودی کے ساتھ ساتھ امت شاہ کی بھی تعریف کی۔ پی ایم مودی کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملک ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔
Published: undefined
بدھ کو پی ایم مودی اور بی جے پی کی تعریف میں قصیدے پڑھتے ہوئے سندھیا نے پالا تو بدل لیا، لیکن جس وقت وہ بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر یہ قصیدے پڑھ رہے تھے، اسی وقت مودی کو لے کر ان کے کچھ دن پہلے تک کے بیانات سامنے آنے لگے۔ دراصل تلخ تقریر کرنے والے سندھیا اب تک پی ایم مودی اور بی جے پی کے سخت ناقد رہے ہیں۔ اب جب انھوں نے پارٹی بدل لی ہے تو یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ بی جے پی اور پی ایم مودی کے بارے میں آج سے پہلے تک ان کے کیا نظریات رہے ہیں۔
Published: undefined
سب سے پہلے بات کرتے ہیں آج سندھیا کے ذریعہ دیے گئے بیان سے۔ بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد اپنے بیان میں سندھیا نے مدھیہ پردیش کے مندسور میں کسانوں پر ہوئی پولس فائرنگ کے واقعہ کا ذکر کیا اور کہا کہ متاثرین کو اب تک نئی حکومت میں راحت نہیں ملی ہے۔ اس دوران سندھیا بھول گئے کہ مندسور واقعہ مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت میں ہوا تھا جس کے خلاف خود انھوں نے بھی تحریک چلائی تھی۔ اور آج وہ اسی بی جے پی کے دفتر میں بیٹھ کر مندسور متاثرین کو یاد کر رہے تھے۔
Published: undefined
7 جون 2018 کو مندسور گولی واقعہ اور نوٹ بندی کو لے کر پی ایم مودی اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان پر تلخ حملہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’دہلی میں بیٹھے وزیر اعظم مودی ملک میں نوٹ بندی کر رہے ہیں اور مدھیہ پردیش میں بیٹھے ہیں ان کے چھوٹے بھائی، میرے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ جو مندسور میں کسان بندی کر رہے ہیں۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ جس شخص نے نوٹ بندی کی، جس شخص نے کسان بندی کی، ان دونوں سے نومبر کے مہینے میں آپ لوگ ووٹ بندی کر کے بدلہ لینا۔‘‘
Published: undefined
اس سے قبل یکم جنوری 2018 کو جوانوں کی شہادت کا ایشو اٹھاتے ہوئے پی ایم مودی پر نشانہ سادھتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’’جنھوں نے بیان دیا تھا کہ وہ منھ توڑ جواب دیں گے، آج وہ لوگ خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں، ایک بھی بیان وزیر اعظم کی طرف سے نہیں آیا، جب کہ ہمارے جوان شہید ہوئے ہیں۔‘‘
Published: undefined
سال 2019 میں کرناٹک میں کانگریس-جے ڈی ایس حکومت کو بی جے پی ذریعہ غیر مستحکم کرنے پر اسی جیوترادتیہ سندھیا نے بی جے پی پر زبردست حملہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح بی جے پی نے کرناٹک میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، لیکن ان کے لیے میرا پیغام ہے... آخر میں جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔‘‘
Published: undefined
سال 2019 میں ہی 15 اپریل کو سیدھے پی ایم مودی پر حملہ آور ہوتے ہوئے سندھیا نے کہا تھا کہ ’’پانچ سال پہلے ایک آدمی آیا تھا آپ کے سامنے ووٹ بٹورنے، کسان کے نام پر، نوجوان کے نام پر، ملک کے نام پر۔ پانچ سال سے اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھنے کو ملا اور جب دوبارہ ووٹ مانگنے کی گھڑی آ گئی تو وہ پھر آنے والا ہے آپ کے سامنے۔ یاد رکھیے گا کہ پانچ سال میں وہ آپ کے سامنے تو نہیں آئے، لیکن 84 ممالک کا دورہ کر لیا۔ انھوں نے اپنے لوگوں کو گلے نہیں لگایا، لیکن غیر ملکی لیڈروں کو جھپّی دیتے نظر آئے۔ ملک کے کسانوں کا کیا حال کر دیا انھوں نے سب کے سامنے ہے۔ پی ایم کے پاس اپنے لوگوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ ان کے پاس پاکستان میں جا کر بریانی کھانے کا وقت ہے۔ چین کے صدر کو گھمانے کا وقت مل جاتا ہے۔ نوجوانوں سے تو مودی نے کہا تھا کہ ہم لائیں گے مواقع کا بھنڈار، لیکن لے کر آئے پان او رپکوڑے والی سرکار۔‘‘
Published: undefined
کانگریس کے اجلاس میں اپنی تقریر میں انھوں نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ سلوک پر بی جے پی اور پی ایم مودی کو گھیرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ ہے مودی جی کا نیو انڈیا۔ جس پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر بتایا جاتا ہے، اس میں ہٹلر شاہی نافذ کر کے لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ میں مودی جی اور ان کی حکومت کو کہنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کا ایک ایک رکن پارلیمنٹ اور کارکن نہ کبھی جھکا ہے اور نہ کبھی جھکے گا۔ چاہے گردن کٹ جائے، لیکن ہم جھکیں گے نہیں، یہی پیغام ہم اس اجلاس سے دینا چاہتے ہیں۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ پانچ انگلی الگ رہیں گی تو بکھر جائیں گی، لیکن یہ مٹھی بن جائیں تو ملک کی ترقی، ملک کا عروج یقینی ہوگا۔ تو ہمیں مٹھی بن کر اس بی جے پی کا سامنا کرنا ہوگا۔‘‘
Published: undefined
اس سے قبل سال 2016 میں پی ایم مودی کے چپکے سے پاکستان کے پی ایم نواز شریف کی بیٹی کی شادی میں جانے پر تلخ حملہ کرتے ہوئے سندھیا نے کہا تھا کہ ’’وزیر اعظم کسی کو بغیر بتائے ایک غیر ملکی شادی میں گئے اور آج ہمیں پٹھان کوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر ملک کے لوگوں کو آپ اعتماد میں لوگے، اپوزیشن پارٹیوں کو آپ اعتماد میں لیں گے اور انھیں بتائیں گے کہ دو فریقی مذاکرہ میں کن ایشوز پر بات چیت ہوئی تو اس کا فائدہ ہوگا۔ لیکن احتیاط آپ نے چھوڑی، تو اس کا خمیازہ ہمارے جوانوں کو اور پورے ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
اس کے علاوہ ابھی حال ہی میں راجدھانی دہلی میں ہوئے تشدد کے دوران جیوترادتیہ سندھیا نے بی جے پی لیڈروں کو تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت اور وزیر داخلہ پر خوب حملہ بولا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’دہلی میں آج کی حالت ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کی اپنی ذمہ داری میں زبردست ناکامی کا نتیجہ ہے۔ تشدد کو لے کر کارروائی کرنے میں انھیں اتنا وقت کیوں لگا؟ بی جے پی لیڈروں کو نفرت کی سیاست پھیلانے سے روکنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، دونوں حکومتوں کو ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
غور طلب ہے کہ تقریباً 18 سال تک کانگریس میں رہے سندھیا نے اس دوران پارٹی میں کئی اہم عہدوں کو سنبھالا۔ اس دوران 10 سال تک مرکز میں رہی کانگریس کی حکومتوں میں وہ لگاتار وزارتی عہدہ پر بھی رہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب سے پہلے کانگریس نے انھیں مدھیہ پردیش انتخابی تشہیر کمیٹی کا صدر بنایا تھا۔ اور اس کے بعد انھیں پارٹی جنرل سکریٹری بناتے ہوئے مغربی اتر پردیش کا انچارج بنایا گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز