نئی دہلی: مراٹھا ریزرویشن کے معاملہ پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ آخر ریزرویشن کتنی نسلوں تک جاری رہے گا! عدالت عظمیٰ نے 50 فیصد کی حد کو ختم کرنے کی صورت پر بھی پیدا ہونے والی تفاوت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ مہاراشٹرا حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی نے جسٹس اشوک بھوشن کی سربراہی میں پانچ ججوں کے آئین بنچ کو بتایا کہ کوٹہ کی حد مقرر کرنے سے متعلق منڈل کیس (عدالت عظمیٰ) فیصلے پر تبدیل شدہ صورت حال میں از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ عدالتیں تبدیل شدہ حالات کے پیش نظر ریزرویشن کوٹہ طے کرنے کی ذمہ داری ریاستوں پر چھوڑ دیں، کیونکہ منڈل کیس سے متعلق فیصلہ 1931 کی مردم شماری پر مبنی تھا۔ مراٹھا طبقہ کو ریزرویشن فراہم کرنے والے مہاراشٹرا کے قانون کے حق میں دلائل دیتے ہوئے روہتگی نے منڈل کیس میں فیصلے کے مختلف پہلوؤں کا حوالہ دیا۔ اس فیصلے کو اندرا ساہنی کیس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اقتصادی طور پر کمزور طبقوں (ای ڈبلیو ایس) کو 10 فیصد ریزرویشن دینے کے مرکزی حکومت کے فیصلے میں بھی 50 فیصد حد کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس پر بنچ نے کہا، "اگر 50 فیصد کی حد یا کوئی حد نہیں رہتی ہے جیسا کہ آپ نے مشورہ دیا ہے، تو مساوات کا تصور کیا ہوگا!" بالآخر ہمیں اس سے نمٹنا ہوگا۔ اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟ اس سے پیدا ہونے والی عدم مساوات کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ آپ اسے کتنی نسلوں تک جاری رکھیں گے۔'‘
Published: undefined
بنچ میں جسٹس ایل ناگیشور راؤ، جسٹس ایس عبدالنظیر، جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس رویندر بھٹ شامل ہیں۔ روہتگی نے کہا کہ منڈل فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں، جو 1931 کی مردم شماری پر مبنی تھا۔ نیز آبادی کئی گنا بڑھ کر 135 کروڑ ہو گئی ہے۔ بنچ نے کہا کہ ملک کی آزادی کے 70 سال گزر چکے ہیں اور ریاستی حکومتیں بہت ساری فلاحی اسکیمیں چلا رہی ہیں اور "کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے، کسی پسماندہ ذات کی ترقی نہیں ہوئی ہے۔"
Published: undefined
عدالت نے مزید کہا کہ منڈل سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ پسماندگی سے نکل جانے والے افراد کو ریزرویشن کے دائرہ کار سے خارج کرنا ہوگا۔ اس پر روہتگی نے استدلال کیا، "ہاں، ہم آگے بڑھے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ پسماندہ طبقات 50 فیصد سے کم ہوکر 20 فیصد رہ گئے ہیں۔ ملک میں ہم تاحال بھوک سے مر رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اندرا ساہنی کیس کا فیصلہ مکمل طور پر غلط تھا اور اسے کوڑے دان میں پھینک دہیں۔ میں یہ معاملہ اٹھا رہا ہوں کہ 30 سال ہو چکے ہیں، قانون بدل گیا ہے، آبادی میں اضافہ ہو گیا ہے، پسماندہ لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ جب متعدد ریاستوں میں ریزرویشن کی حد 50 فیصد سے زیادہ ہے تو پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے اور 30 سال بعد بھی اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے میں بحث ادھوری رہی اور پیر کو بھی دلائل پیش کیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ عدالت عظمی بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کر رہی ہے، جس میں ریاستی تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری ملازمتوں میں مراٹھا طبقہ کے لئے ریزرویشن کو برقرار رکھا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز