اردو ہندوستان کی مشترکہ گنگا-جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ اخبارات کے معاملے میں بھی یہ پیچھے نہیں رہی۔ مغربی بنگال کے اخبارات اردو پریس کے پیش رو تھے۔ فارسی زبان کے بعد ہندوستان میں اردو زبان نے فروغ پایا۔ اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘ تھا جس کے بانی ہری ہر دت تھے اور انھوں نے اس اخبار کو 1822 میں کلکتہ سے شائع کیا۔ انگریزی اور بنگالی زبان کے بعد یہ اخبار ہندوستان میں کسی تیسری زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ یہ 1888 تک شائع ہوتا رہا۔
Published: undefined
1857 کے بعد اردو صحافت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس کے بعد اودھ اخبار (لکھنؤ)، سائنٹفک گزٹ اور تہذیب الاخلاق (علی گڑھ)، اودھ پنچ (لکھنؤ)، اکمل الاخبار (دہلی)، پنجاب اخبار (لاہور)، شمس الاخبار (مدراس)، کاشف الاخبار (بمبئی)، قاسم الاخبار (بنگلور) اور آصف الاخبار (دکن) جیسے اخبارات شائع ہوئے۔ ’دہلی اردو اخبار‘ دہلی سے اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار تھا جسے مولوی محمد باقر نے 1837 میں شائع کیا۔ مولوی محمد باقر 1857 کی جنگ آزادی میں ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔ دہلی سے ہی ماسٹر رام چندر نے 1945 میں اخبار فوائد الناظرین اور 1847 میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ ’محب ہند‘ جاری کیا۔ خواتین کا پہلا اردو رسالہ ’اخبار النساء‘ تھا۔
Published: undefined
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی اردو صحافت پر سیاسی اور سماجی اصلاحات کا غلبہ رہا۔ کانگریس، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا، آریہ سماج، تحریک خلافت اور علی گڑھ تحریک کی طرف سے شروع کی گئی سیاسی اور سماجی تحریکوں نے اردو زبان کے اخبارات اور رسالوں پر ایک گہرا اثر چھوڑا اور اردو صحافت نے اسی صدی میں ایک مضبوط قوم پرستانہ رخ اختیار کیا۔
Published: undefined
اس وقت کا سب سے بڑا اردو رسالہ ’الہلال‘ تھا جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے شائع کیا۔ یہ اردو کے اولین ایسے اخبارات میں سے ایک تھا جس نے ترتیب اور ڈیزائن سمیت مواد اور پیشکش کو یکساں اہمیت دی۔ اسے مصری اخبارات کے طرز پر آراستہ کیا گیا تھا لیکن اس کا سب سےبڑا اثاثہ پُراثر مواد تھا۔ حیدر آباد سے 1921 میں ’رہبر دکن‘ کے نام سے ایک اردو اخبار کی اشاعت شروع ہوئی جو آج ’رہنمائے دکن‘ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ 1923 میں سوامی شردھانند نے لالہ دیش بندھو گپتا کی ادارت میں اخبار ’تیج‘ کی بنیاد رکھی۔ راجستھان، اتر پردیش اور دہلی میں اس کا دائرہ وسیع رہا۔ اسی سال یعنی 1923 میں آریہ سماج نے لاہور میں اخبار ’ملاپ‘ شروع کیا جو اپنے طاقتور قوم پرست اداریوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے 1945 میں ’قومی آواز‘ کی داغ بیل ڈالی۔
Published: undefined
تقسیم ہند کے دوران اور مابعد اردو صحافت کو کافی نقصان پہنچا۔ اس وقت اردو کے 415 اخبارات نکلتے تھے جن میں روزنامے، ہفتہ وار، پندرہ روزہ اور ماہانہ رسائل شامل تھے۔ تقسیم کے بعد ان کی تعداد ہندوستان میں 345 رہ گئی کیونکہ تقریباً 70 اخباروں کے مدیران ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔ 1957 کی آر این آئی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اردو اخبارات کی تعداد 513 تھی اور ان کی مشترکہ سرکولیشن 7.48 لاکھ تھی۔ آر این آئی رپورٹ 2007 کے مطابق پچاس سال بعد صرف اردو روزناموں کی تعداد 3168 تھی اور ان تمام اردو اخباروں کی مشترکہ سرکولیشن 1.7 کروڑ تک پہنچ گئی۔
Published: undefined
تقسیم کے بعد نکلنے والے اردو اخبارات میں ’دعوت‘ بھی شامل ہے جسے جماعت اسلامی ہند نے شروع کیا تھا۔ مولانا عبدالوحید صدیقی نے اردو کا ایک مقبول ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ اور سہارا گروپ نے ہفتہ وار ’عالمی سہارا‘ شروع کیا۔ علاوہ ازیں حیدر آباد سے اردو اخبارات کی ایک اچھی خاصی تعداد شائع ہوئی جس مین رہنمائے دکن، سیاست، منصف اور اعتماد قابل ذکر ہیں۔
Published: undefined
درحقیقت 2006 تک آندھرا پردیش میں ہندوستان کی تمام ریاستوں میں سے سب سے زیادہ رجسٹرڈ اردو اخبارات (506) تھے۔ اس وقت ممبئی میں روزنامہ انقلاب اور اردو ٹائمز سمیت کئی اردو اشاعتیں بھی تھیں۔ مغربی بنگال، خاص طور پر کلکتہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں اردو اخبارات شائع ہو رہے تھے۔
Published: undefined
حیدر آباد سے شائع ہونے والا ’سیاست‘ پہلا ایسا اردو اخبار ہے جس نے 90 کی دہائی کے آخر میں ویب ایڈیشن شروع کیا۔ اس وقت کئی دوسرے اردو اخبارات یا اشاعتوں کے ویب ایڈیشن موجود ہیں۔ دہلی اور شمالی ہند کی ریاستوں جیسے اتر پردیش اور بہار کے علاوہ جنوبی ہندوستان میں بھی اردو پریس کو فروغ دینے کی روایت ہے، تاہم حیدر آباد ایک بڑا اشاعتی مرکز ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined