کھرگون میں ہندوتوا طاقتوں کے ذریعہ لگائی گئی آگ اب مدھیہ پردیش کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلنے لگی ہے۔ اب تو اس کی آنچ راجدھانی بھوپال تک پہنچ گئی ہے۔ شہر کے امن اور بھائی چارے کے ساتھ ہی نظامِ قانون کو کھلا چیلنج دیتے ہوئے ہندوتوا تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر شہر میں شوبھا یاترا نکالیں گے اور ’جہادیوں کی چھاتی پر بھگوا لہرائیں گے‘۔ اس سلسلے میں وہاٹس ایپ گروپ پر میسجز شیئر کیے جا رہے ہیں جس میں ہندوؤں سے ریلی میں بڑی تعداد میں حصہ لینے کی اپیل کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
حالانکہ بھوپال پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی بھی قیمت پر شہر کے امن کو تباہ نہیں ہونے دیا جائے گا، اور ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ لیکن بھوپال کے باشندوں کے درمیان اس طرح کے اعلانات کے بعد بے چینی ہے اور وہ مانتے ہیں کہ یہ سب حکومت کی شہ پر ہو رہا ہے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ہندوتوا تنظیموں کو حکومت کی طرف سے چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
Published: undefined
نیشنل ہیرالڈ نے بھوپال کے کئی ایسے مشہور شہریوں سے بات کی جنھوں نے ایشیا کی سب سے بڑی مسجد تاج المساجد والے بھوپال شہر کی ثقافت و وراثت کو مضبوطی فراہم کی ہے۔ ہندی کے مشہور ناقد اور ’جن وادی لیکھک سنگھ‘ کے سربراہ وجئے بہادر سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی ان فاشسٹ عناصر کے ساتھ سانٹھ گانٹھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مدھیہ پردیش کی منتخب ہوئی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست میں امن اور خیر سگالی قائم رکھے، لیکن اس کی جگہ وہ ایسے عناصر کو فروغ دے رہی ہے جنھوں نے کھرگون کو فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جھونک دیا۔ یہ ملک کے لیے بھی بہت ہی خطرناک حالت ہے۔‘‘
Published: undefined
بھوپال کو 1995 سے ہی اپنا گھر بنا چکے وجئے بہادر سنگھ نے آر ایس ایس کے اس نظریہ پر سوال اٹھایا جس میں برسراقتدار عناصر کے ذریعہ ہندو شناخت کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’آخر کون ہندو ہے؟ آر ایس ایس اور بی جے پی کی رائے میں تو ہر وہ شخص جس نے سَنگھ کی شاخہ میں حصہ نہیں لیا، ہندو نہیں ہے۔ لیکن سچ یہ نہیں ہے۔ یہ لوگ ہندوؤں کے نام پر سماج میں جو کچھ کرتے ہیں اس سے ہندوؤں کی ہی بدنامی ہو رہی ہے۔‘‘ انھوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر اسے یہیں نہیں روکا گیا تو ملک ایک بار پھر تقسیم ہو جائے گا۔‘‘
Published: undefined
اسی بات کو دہراتے ہوئے ایک ہندی شاعر اور سماجی کارکن نے کہا کہ ’’مدھیہ پردیش میں ایسا مذہبی اشتعال اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ سب ایک خاص مقصد سے کیا جا رہا ہے۔ اور مقصد ایک ہی ہے کہ کسی طرح مذہبی اشتعال کو بنائے رکھا جائے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بھوپال پولیس نے اس ریلی کی اجازت دی ہے، تو انھوں نے کہا کہ ’’راستے بدلے جائیں گے، نظامِ قانون بنائے رکھنے کے نام پر بھاری تعداد میں سیکورٹی فورس بھی تعینات کیے جائیں گے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ ہندوتوا تنظیموں نے اس جلوس کو شہر کی ہر ایک گلی کوچے سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ مدھیہ پردیش کانگریس کے ترجمان کے کے مشرا نے بی جے پی حکومت پر فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جو لوگ امن کو ختم کرنا چاہتے ہیں وہی حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت خود ہی سازش میں شامل ہوگی تو پھر بھوپال کو کون بچا پائے گا؟‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز