ہندو مہاسبھا کی علی گڑھ اکائی نے ہندو نئے سال کا ایک انتہائی متنازعہ کلینڈر جاری کیا ہے۔ اس کلینڈر میں تاج محل سمیت 7 مساجد اور دور مغلیہ کی عمارتوں کی تصاوی لگائی گئی ہیں ۔ ہندو مہا سبھا کا دعوی ہے کہ یہ تمام عمارتیں درحقیقت مندر ہیں۔
ہندو نئے سال کے کلینڈر میں آگرہ کے تاج محل کو ’تیجو مہالئے مندر‘ بتایا گیا ہے ۔ وہیں مدھیہ پردیش کی کنول مولا مسجد کو ’بھوج شالا‘ اور بنارس کی گیان واپی مسجد کو ’وشو ناتھ مندر‘ بتایا گیا ہے۔ کلینڈر میں قطب مینار کو بھی مندر قرار دیتے ہوئے اسے ’وشنو استمبھ‘ اور جونپور کی اٹالا مسجد کو ’اٹلا دیوی کا مندر‘ قرار دیا گیا ہے۔ ایودھیا کی شہید ہو چکی بابری مسجد بھی اس کلینڈر میں شامل ہے جسے ’رام جنم بھومی‘ دکھایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کلینڈر میں مسلمانوں کے مذہبی مقام ’مکہ مکرمہ‘ کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ ہندو مہا سبھا نے اس کو اپنے کلینڈر میں ’مکّیشور مندر‘ ظاہر کیا ہے۔
Published: 19 Mar 2018, 6:51 PM IST
پوجا نے کہا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہندو راشٹر کے لئے پر عزم ہیں۔ اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے یہ کلینڈر جاری کیا گیا ہے۔ ‘‘
ہندو مہاسبھا کی سکریٹری پوجا شکون پانڈے سے جب اس کلینڈر کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’ہندو نئے سال کا استقبال انہوں نے ’ہون‘ کے ساتھ کیا ہے۔ اس موقع پر ہندو نئے سال کا کلینڈر جاری کیا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ قرار دیا جائے۔ ‘‘
Published: 19 Mar 2018, 6:51 PM IST
انہوں نے مزید کہا کہ ’’مسجدوں میں گنبد بنانے کا تصور اسلامی طرز تعمیر کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوؤں نے شروع کیا تھا جسے مسلم حکمرانوں نے آگے بڑھایا۔ تاج محل کے اندر ایک قبر موجود ہے جس کی انجینئرنگ بہت حد تک ہندو تکنیک سے ملتی جلتی ہے۔ ‘‘ پوجا کا دعویٰ ہے کہ ’’بیرونی حملہ آوروں نے ملک کے ہندو مذہبی مقامات کو لوٹا اور ان کے نام تبدیل کر کے انہیں مسجد بنا دیا۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’اب مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہندوؤں کے مذہبی مقامات کو واپس کر دیں۔ اگر مسلمان دریا دلی دکھاتے ہیں تو ہم لوگ واپس ملے مذہبی مقامات کے نام پھر سے تبدیل کر لیں گے۔ ‘‘
Published: 19 Mar 2018, 6:51 PM IST
ہندو مہاسبھا سکریٹری نے مکہ مکرمہ کو کلینڈر میں شامل کیے جانے سے متعلق کہا کہ ’’جب مسلمان مکہ میں حج کے لئے جاتے ہیں تو سفید پوشاک پہنتے ہیں اسے آپ مسلم روایت کا حصہ نہیں مان سکتے بلکہ یہ ہندوتوا سے جڑا ہوا ہے۔‘‘
ہندو مہاسبھا کے دعوؤں پر جب مولانا خالد رشید فرنگی محلی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’’یہ دعوے بے بنیاد ہیں۔ شر انگیز طاقتیں اس طرح کے بیجا بیانات کے ذریعہ ملک کی فضا میں زہر گھولنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس طرح کے لوگوں پر قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ ‘‘
علی گڑھ کے سابق رکن اسمبلی ضمیر اللہ خان نے اس معاملے پر کہا کہ ’’پاکستان کے حافظ محمد سعید اور اس طرح کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی اپنے اپنے ملک کو برباد کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس طرح کے بیانات دونوں فرقوں کے بیچ پھر سے تنازعہ پیدا کرنے کی نیت سے دیے جا رہے ہیں۔ ‘‘
Published: 19 Mar 2018, 6:51 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Mar 2018, 6:51 PM IST