نئی دہلی: کرناٹک میں چل رہے حجاب تنازعہ پر بیرون ملک سے رد عمل ظاہر کئے جانے کے بعد آج ہندوستان نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اندرونی مسائل پر کسی خاص مقصد سے کئے تبصرے قابل قبول نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے اور اس پر رپورٹ کرنے والے امریکی حکومت کے ادارے عالمی ازادی مذہب (آئی آر ایف) نے مسلمان طالبات کے کالج کیمپس میں حجاب پہننے کے مطالبہ پر پیدا ہونے والے تنازعہ کے حوالہ سے کرناٹک حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
وزارت برائے امور خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’’کرناٹک کے کچھ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ سے متعلق معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں زیر غور ہے۔ ہمارے آئینی فریم ورک اور نظام کے علاوہ ہمارے جمہوری اقدار اور پالیسی اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے اہل ہیں۔ ہندوستان سے جو اچھی طرح واقف ہیں وہ اس حقیقت کا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے اندرونی مسائل پر متحرک تبصرے خوش آئند نہیں ہیں۔‘‘
کرناٹک تنازعہ کا حوالہ دیتے ہوئے آئی آر ایف کے سفیر راشد حسین نے ٹوئٹ کیا، ’’مذہبی آزادی میں کسی کو بھی مذہبی لباس کا انتخاب کرنے کی آزادی شامل ہے۔ بھارتی ریاست کرناٹک کو اس بات کا تعین نہیں کرنا چاہیے۔ اسکولوں میں حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے، یہ خواتین اور لڑکیوں کو بدنام اور پسماندہ کرتی ہے۔‘‘
دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے اس امریکی ادارہ کے سفیر حسین ہیں اور امریکی دفتر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے تحت آتا ہے، جو ماضی میں بھی ہندوستان میں مذہبی کشیدگی پر تبصرہ کر چکا ہے۔
خیال رہے کہ کرناٹک میں حجاب کے تنازعہ کے پیش نظر پولیس نے احتیاطی اقدام کے طور پر جنوبی کنڑ اور اڈوپی اضلاع میں فلیگ مارچ کیا۔ ڈپٹی کمشنر آف پولیس ہری رام شنکر نے بتایا کہ جمعہ کی شام کو جنوبی کنڑ ضلع کے پٹور اور سورتکل میں فلیگ مارچ کیا گیا۔ اس میں ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) کی 97ویں بٹالین کے 130 اہلکاروں نے حصہ لیا۔ شنکر نے کہا کہ یہاں پنمبور میں تعینات آر اے ایف کے اہلکار امن و امان کی صورتحال خراب ہونے پر عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کریں گے۔ پولس نے حجاب تنازعہ کے مرکز اڈوپی کے کوپ، کنڈا پور، کرکالا، پڈوبیداری، برہماور، بندور اور شیروا میں فلیگ مارچ نکالا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined