قومی خبریں

گیان واپی اور متھرا عیدگاہ معاملہ: سپریم کورٹ میں آج نہیں ہو سکی بحث، سماعت 4 ہفتہ کے لیے ملتوی

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سیدارشدمدنی کا کہنا ہے کہ آئین کی بالادستی کوقائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا حکومت اور عدالت کا کام ہے، ہمیں امید ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رہے گی۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ 

نئی دہلی: بنارس کی گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ معاملہ کو لے کر سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عرضی گذار کے وکیل وشنو شنکر جین نے عدالت سے چارہفتوں کی مہلت طلب کی کیونکہ آج ان کے سینئر وکیل بحث کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، حالانکہ اس معاملہ میں بطور مداخلت کار جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرنے کے لئے ملک کے مشہورممتاز اور سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون آج پوری تیاری کے ساتھ عدالت گئے تھے مگر بحث نہیں ہوسکی اورآئندہ کی سماعت چارہفتے کیلئے ملتوی ہوگئی۔

Published: undefined

چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس بوپنا نے ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے داخل پٹیشن، جس میں انہوں 1991کے یہ مذہبی عبادت گاہ تحفظ کی قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، پر سماعت سننے کے لئے تیار تھے لیکن عرضی گذار کے وکیل نے بحث کرنے سے معذرت کرلی اور عدالت سے وقت طلب کیا جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی چار ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔

Published: undefined

صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سیدارشدمدنی نے اس معاملہ پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ آئین کی بالادستی کوقائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا حکومت اور عدالت کا کام ہے، ہمیں امید ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادمضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتاہے۔ دوسرے اس قانون کی دفعہ4، عبادت گاہوں کی حیثیت کی تبدیلی کوروکتاہے اور شاید اسی لئے اب اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنچ کرنے کی کوشش کی گئی۔

Published: undefined

مولانا مدنی نے کہا کہ مذہبی عبادت گاہ تحفظ قانون لاکر حکومت نے یہ آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کریگی، اس قانون سازی کا ایک بڑامقصدیہ بھی تھا کہ اس کے ذریعہ سیکولرزم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے،لیکن اس کے باوجود عدالت میں سادھوں ستنوں کی ایک تنظیم کے ذریعہ اس قانون کی آئینی حیثیت پر سوال کھڑاکرنے کی کوشش ہوئی ہے۔اب اس قانون کی حفاظت کی آئینی ذمہ داری عدالت اور حکومت کی ہے۔

Published: undefined

واضح رہے کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے،صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے سب سے پہلے مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے تاکہ عدالت سے یہ گزارش کی جاسکے کہ وہ سادھوؤں کی پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول ہی نہ کرے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined