ساری دنیا اس وقت کورونا وائرس کی زد میں ہے اور اس کے خلاف متحد ہو کر جنگ لڑی جا رہی ہے، وہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ تبلیغی جماعت کے نام پر میڈیا نے ایسا ہنگامہ برپا کیا کہ شہر شہر اور گلی گلی مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، حتی کہ انتہا پسند اب مسلمانوں کا وجود بھی ہندوستان میں برداشت نہیں کرنا چاہتے۔
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
معروف مصنفہ اروندھتی رائے نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس ماحول کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماج مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف گامزن نظر آ رہا ہے۔ دیگر سماجی کارکنان نے بھی اس ماحول کے حوالہ سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی ہندی نے اس ضمن میں کئی سماجی کارکنان کے بیان پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
دراصل، لاک ڈاؤن شروع ہونے کے ایک ہفتہ بعد نظام الدین میں واقع مرکز کو لے کر ہنگامہ برپا کا گیا تھا۔ یکم مارچ سے 15 مارچ کے درمیان اجتماع میں شامل ہونے والے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ لیکن 22 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے تک بہت سارے لوگ مرکز کی عمارت میں ہی موجود تھے۔
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایم ایس یونیورسٹی کے پروفیسر جے ایس بندوق والا نے کہا کہ انتظامیہ تو اپنا کام کر رہی ہے لیکن میڈیا نے صورت حال کو کشیدہ بنا دیا۔ انہوں نے کہا ’’نظام الدین واقعے کے بعد ملک کی توجہ کورونا وائرس کی جگہ مسلمانوں کی طرف مبذول ہو گئی۔ اگر مرکز میں کچھ لوگ ٹھہرے ہوئے بھی تھے، جو کہ اپنی مجبوری بیان کر رہے ہیں، تو ان کی غلطی کی سزا پورے طبقہ کو دینا کس طرح درست ہے؟‘‘
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
دہلی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن شبنم ہاشمی تبلیغی جماعت کے نظریہ کے خلاف بولتی رہی ہیں اور اس کے خلاف مظاہرہ بھی کر چکی ہیں لیکن اس واقعہ پر ان کی رائے یہ ہے کہ کورونا وائرس پھیلانے کا الزام پورے طبقہ پر لگانا بہت بڑی زیادتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے محنت کش مسلم نوجوانوں کے روزگار کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوگا اور انہیں تعصب کا شکار ہونا پڑے گا۔
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
ممبئی کے تاجر ظفر سریش والا نے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں کئی بڑی کاروباری تقاریب میں شریک ہوتے رہے ہیں، بی بی سی سے گفتگو میں کہا، ’’یہ چند لوگوں کے اقدامات ہوتے ہیں جو بنیاد پرست ذہنیت کے حامل ہیں۔ ہم پہلے بھی ایسا دیکھ چکے ہیں۔ پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا تو یہ لوگ پرچے بانٹ دیتے تھے۔ لیکن ایسے لوگ کسی سے ترقی کے مواقع نہیں چھین پائے، جن مسلمانوں کو بلندیوں پر جانا تھا، وہ گئے۔‘‘
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
وہ کہتے ہیں، ’’مجھے آج بھی یاد ہے، ’’1985 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد احمد آباد میں بھڑکانے والے پرچے تقسیم کیے گئے تھے جن میں مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد باتیں لکھی تھیں۔ کچھ دن ان پرچوں پر بحث ہوئی، پھر سب کچھ نارمل ہوگیا۔‘‘
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
لیکن مشہور سماجی کارکن ڈاکٹر حنیف لاکھڑا والا کی رائے ظفر سریش والا سے جدا ہے۔ وہ پچھلے 40 سالوں سے غریب اور پسماندہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت سماج کے تمام طبقات میں پھیل چکی ہے اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے پیغامات ان کی اس نفرت کو باہر لانے کا فقط ایک ذریعہ ہیں۔‘‘
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
ڈاکٹر حنیف کا کہنا ہے کہ ’’یہ لوگ کیا کریں گے! بس یوں ہی انہیں لعن و طعن کرتے رہیں گے۔ ہر دفعہ ایک نیا بہانہ ڈھونڈ لیا جائے گا۔ یہ ملک ان کا بھی تو ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’بنیاد پرستوں نے مسلمانوں کو ملک میں غیر بنا دیا ہے اور یہ حالات آہستہ آہستہ ہندوستان کو تباہ و برباد کر کے چھوڑیں گے۔‘‘
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Apr 2020, 7:40 PM IST