اتر پردیش کے ہاتھرس اجتماعی عصمت دری معاملہ میں طبی جانچ اور ایف ایس ایل رپورٹ کو لے کر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یو پی پولس کی جانب سے اے ڈی جی پی پرشانت کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایف ایس ایل رپورٹ میں عصمت دری کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے جے این میڈیکل کالج، علی گڑھ سے جاری کی گئی میڈیکو اگزامنیشن رپورٹ میں 'وجائنل پینیٹریشن' اور زبردست کیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس بحث میں ایک تصویر کو صاف کرنے کے لیے ہم نے علی گڑھ اسپتال کے چیف میڈیکل افسر (سی ایم او) ڈاکٹر ایم اے ملک سے بات کی۔ ان سے بات چیت کے اہم اقتباسات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
متاثرہ کو آپ کے یہاں کب داخل کرایا گیا تھا اور اس وقت اس کی کیا حالت تھی؟
ان کو یہاں 14 ستمبر کو لایا گیا تھا۔ ہمارے میڈیکل اسٹاف کی ایمرجنسی نے انھیں اٹینڈ کیا تھا۔ تب ان کی زبان کٹی ہوئی تھی۔ گردن پر گہرا نشان تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ اور پیروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ وہ بیٹھ نہیں پا رہی تھی۔ اسپائنل انجری کے معاملے میں ایسا ہو جاتا ہے۔ تب اس کی آنکھ میں بھی سوزن تھی۔ اس دن جب وہ آئی تھی تو کچھ بھی بول نہیں پا رہی تھی۔ ان کی پیشنٹ ہسٹری کے بارے میں ان کے والدین نے بتایا تھا۔
Published: undefined
کیا تب آپ کو بتایا گیا تھا کہ ان کے ساتھ عصمت دری ہوئی ہے؟
نہیں، تب کسی نے یہ نہیں بتایا۔ وہ تو بول ہی نہیں پا رہی تھی۔ ان کے والدین نے نہیں بتایا۔ ہمیں شکایت کی گئی کہ گلا دبانے کی کوشش ہوئی ہے۔ تب ہم نے اسے نیوروسرجری میں ایڈمٹ کرا دیا۔ علاج شروع ہوا۔ اسے ہائی ڈیپنڈنسی میں ہم نے رکھا۔ وہ ہاتھرس سے یہاں ریفر کی گئی تھی۔
Published: undefined
پہلی بار عصمت دری کی بات کہاں سے سامنے آئی؟
جب تک پیشنٹ ٹھیک سے بات نہ کرنے لگے اور بیان دینے کی حالت میں نہ ہو تو بیان درج نہیں کرتے ہیں۔ مطلب ریکارڈ نہیں کر سکتے ہیں۔ 22 ستمبر کو ہمیں نیورو سرجری سے بتایا گیا کہ مریض اب بیان دے سکتی ہے، اس لیے آپ لوگ مجسٹریٹ کو بلوا لیجیے۔ پھر ہم نے مجسٹریٹ کو کال کیا تو شام میں ساڑھے پانچ بجے (22 ستمبر) کو وہ آئے۔ اس وقت میں خود ڈیوٹی پر تھا اور میں مجسٹریٹ کے ساتھ گیا۔ ایک خاتون نرس بھی ساتھ میں تھی۔
جب مجسٹریٹ اسٹیٹمنٹ یعنی بیان ریکارڈ کرتے ہیں تو ڈاکٹر کا کام ہوتا ہے کہ مریض کی حالت کو دیکھا کہ وہ اپنا بیان دینے لائق ہے یا نہیں۔ باقی اتنا پوچھنے کے بعد ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ ہم نے کیا، مجسٹریٹ نے بیان ریکارڈ کیا۔ حالانکہ میرے اسٹاف نے مجھے بتایا کہ انھیں مریض نے بتایا ہے کہ ان کے ساتھ عضو تناسل سے 'وجائنل پینیٹریشن' ہوا ہے۔ اس کے بعد ہم نے جانچ کروائی۔
Published: undefined
کیا آپ کی میڈیکل رپورٹ (ایم ایل سی) بتاتی ہے کہ وجائنل پینیٹریشن ہوا تھا؟
جس دن اس لڑکی (متاثرہ) نے مجسٹریٹ کو بیان دیا، اس دن صبح میں یہی بات متاثرہ نے ہماری سسٹر (اسٹاف نرس) کو بتائی تھی۔ ایس آئی ٹی میں یہ سسٹر گواہ ہے۔ مجھے میرے اسٹاف نے بتایا کہ انھیں مریض نے بتایا ہے کہ اس کے ساتھ 'وجائنل پینیٹریشن' ہوا ہے۔ ان کے بیان درج ہوئے ہیں۔ وجائنل پینیٹریشن کا مطلب ہوتا ہے کہ عضو خاص میں کسی باہری چیز کا دخول ہوا ہے۔ ہم نے اپنی میڈیکل اگزامنیشن میں جو پایا ہے، وہی لکھا ہے۔ ایف ایس ایل رپورٹ میں تاخیر ہوئی ہے۔
Published: undefined
یو پی پولس تب یہ کیسے کہہ رہی ہے کہ عصمت دری نہیں ہوئی ہے؟
ایف ایس ایل رپورٹ کی بنیاد پر وہ یہ کہہ رہے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنی رائے نہ دیتے ہوئے فورنسک لیب کو بھیج دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈاکٹر کو جنسی تشدد کی نہ تردید کرنی چاہیے اور نہ ہی تصدیق کرنی چاہیے۔ یہ وزارت صحت کے ذریعہ دیا گیا پروٹوکول ہے۔ اس رپورٹ کا ہمارے جس ڈاکٹر نے جائزہ لیا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ مقامی ٹیسٹ کی بنیاد پر زبردست کیے جانے کے نشان ہیں۔
ایف ایس ایل کا سیمپل 25 ستمبر کو لیا گیا تھا، یعنی واقعہ کے تقریباً 11 دن بعد۔ اس میں اسپرم (نطفہ) نہیں ملے ہیں۔ تین سے چار دن بعد عصمت دری متاثرہ سے نطفہ کے نشان مٹ جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کے ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اسی وجہ سے کسی متاثرہ کو نہانے، کپڑے بدلنے وغیرہ کے لیے منع کیا جاتا ہے۔ اتنے دنوں بعد تک سویب کے سیمپل میں اسپرم یا اووا کا ملنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ متاثرہ جب اسپتال پہنچی تھی تو داخل ہونے کے وقت اس کے کپڑے دھلے ہوئے اور صاف تھے۔ اَنڈر گارمنٹس بھی بدلے ہوئے تھے۔ ایسے میں نشان ملنے کی امید صفر ہو جاتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز