بی جے پی یا این ڈی اے میں شامل پارٹی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات اکثر آتے رہے ہیں لیکن مرکز میں مودی حکومت تشکیل پانے کے بعد ان اشتعال انگیز بیانات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافہ کا اندازہ حالانکہ عام لوگوں کو بھی ہوگا لیکن ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ وی آئی پی لیڈروں کے ذریعہ ’ہیٹ اسپیچ‘ یعنی اشتعال انگیز بیانات میں 500 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ انکشاف پرائیویٹ نیوز چینل ’این ڈی ٹی وی انڈیا‘ نے کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کوئی دن یا ہفتہ نہیں گزرتا جب کسی سینئر لیڈر نے اشتعال انگیز بیان نہ دیا ہو۔
اپنی تحقیق سے متعلق چینل کا کہنا ہے کہ اس نے 2009 سے 2014 اور 2014 سے اب تک کے ڈاٹا پر مبنی سروے کیا جس میں پتہ چلا کہ 2009 سے 2014 کے مقابلے 2014 سے اب تک وی آئی پی لیڈروں نے 500 فیصد زیادہ اشتعال انگیز بیانات دیئے۔ اس طرح کے بیانات دینے والوں میں ممبران پارلیمنٹ، وزراء، ممبران اسمبلی، حتیٰ کہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں۔ اس پرائیویٹ چینل نے اپنی ویب سائٹ پر ڈالی گئی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان اشتعال انگیز بیانات میں کسی خاص مذہب کے خلاف اور تشدد پیدا کرنے والے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لیڈروں کے ذریعہ سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے اس طرح کے بیانات کا دائرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2014 سے لے کر اب تک 124 بار 44 وی آئی پی لیڈروں نے اشتعال انگیز بیان دیئے ہیں جب کہ اس کے مقابلے یو پی اے-2 کے دوران ایسا صرف 21 مرتبہ ہوا تھا۔ اس بنیاد پر مودی حکومت کے دوران وی آئی پی لیڈروں کے ذریعہ اشتعال انگیز بیانات میں تقریباً 500 فیصد کا اضافہ ہوا۔ موجودہ این ڈی اے حکومت کے دوران اشتعال انگیز بیان دینے والوں میں 90 فیصد لیڈران بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ این ڈی اے حکومت کے دوران 44 لیڈروں نے اشتعال انگیز بیانات دیے ہیں جن میں سے 34 یعنی 77 فیصد بی جے پی سے ہیں، بقیہ 10 لیڈروں میں کانگریس، سماجوادی پارٹی اور لالو یادو کی آر جے ڈی کے لوگ شامل ہیں۔
یو پی اے-2 کے دوران کل 21 لیڈروں نے جو اشتعال انگیز بیان دیئے تھے ان میں سے 3 یعنی صرف 14 فیصد برسراقتدار اتحاد یو پی اے کی اہم پارٹی کانگریس سے متعلق تھے۔ جب کہ اپوزیشن پارٹیوں میں بی جے پی اس معاملے میں آگے رہی۔ یو پی اے-2 کے دوران بی جے پی کے 7 لیڈروں نے اشتعال انگیز بیان دیئے تھے۔ بقیہ کے 11 نفرت آمیز بیانات سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، شیو سینا اور اے آئی ایم آئی ایم کے لیڈروں نے دیئے تھے۔
Published: undefined
اپنے سروے کے مقاصد کے تعلق سے این ڈی ٹی وی انڈیا نے لکھا ہے کہ ’’ہمارا مقصد صرف ایسے بیانات کے بارے میں آپ کو بتانا ہے۔ اس ریسرچ کے دوران ہم نے انٹرنیٹ سے لے کر پبلک ریکارڈ بھی جانچے اور ساتھ ہی اس دوران کے 1300 سے زائد مضامین کو کھنگالا گیا ہے۔‘‘ حالانکہ چینل نے یہ نہیں بتایا ہے کہ انھوں نے کون کون سے بیانات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا، لیکن مثال کے طور پر 2015میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ دیا گیا بیان اور مارچ 2016 میں بی جے پی کے کرناٹک سے ممبر پارلیمنٹ کمار ہیگڑے کا بیان پیش کیا گیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2015 میں کہا تھا کہ ’’شاہ رخ خان اور حافظ سعید کی زبان میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح اننت کمار ہیگڑے نے بیان دیا تھا کہ ’’جب تک دنیا میں اسلام ہے تب تک دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ اسلام ختم نہیں کر سکتے تو دہشت گردی پر بھی قابو نہیں پا سکیں گے۔‘‘
چینل کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانات کو الگ کرنے کے لیے انھوں نے عام طریقہ کار اختیار کیا اور انہی تقاریر کو اس درجہ میں رکھا گیا جن میں خصوصاً کسی طبقہ یا ذات کے خلاف بولا گیا ہے یا تشدد برپا کرنے والے لفظوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس طرح کی بیان بازی تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہے۔ اپنی تحقیق میں چینل نے ایسے بیانات کو بھی شامل کیا جو براہ راست فرقہ پرستی پر مبنی ظاہر نہیں ہوتیں لیکن اس سے کہیں نہ کہیں فرقہ وارانہ جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تحقیق میں ایسے بیانات کو شامل نہیں کیا گیا ہے جس میں خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ پر مبنی بیانات دئیے گئے ہیں۔
بہر حال، اشتعال انگیز بیانات تو لیڈروں کے ذریعہ پہلے بھی دئیے جاتے تھے، لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں اس کی تعداد میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے وہ قابل فکر ہے۔ یہ صرف لیڈروں کے گرتے معیار کی طرف ہی اشارہ نہیں ہے بلکہ سیاست میں پھیل رہی گندگی کی بھی غماز ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined