’ملک کے غداروں کو، گولی مارو...‘ نعرہ کے بعد بھی مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے ایک دیگر لیڈر پرویش ورما پر کیس درج نہ کرنے کو لے کر سپریم کورٹ نے دہلی کے ایک مجسٹریٹ کے فیصلے پر آج تلخ تبصرہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مجسٹریٹ نے کیس درج کرنے کے لیے جس سینکشن کے ہونے کا (آفیشیل منظوری) کا تذکرہ کیا تھا، وہ قانونی طور پر درست نہیں ہے۔
Published: undefined
آج سپریم کورٹ نے بی جے پی رکن پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما پر ایف آئی آر درج کرنے کے مطالبہ والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔ سی پی ایم لیڈر برندا کرات کی عرضی میں 2020 میں سی اے اے مخالف تحریک کے خلاف دونوں اراکین پارلیمنٹ کے اشتعال انگیز بیانات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ذیلی عدالت اور ہائی کورٹ نے ان کی عرضی کو خارج کر دیا تھا۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ نے انوراگ ٹھاکر کی ’گولی مارو‘، والے تبصرہ پر خاص طور سے توجہ مرکوز کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ غدار کا مطلب غدارِ وطن ہوتا ہے؟ یہاں پر گولی مارو کا تعلق دوائی سے تو یقینا نہیں تھا۔‘‘ اس پر وکیل نے کہا ’’ہاں، اس کی منظوری اپنے آپ میں ایک ایشو ہے کہ عدالت کو اس پر غور کیوں کرنا چاہیے؟‘‘
Published: undefined
سپریم کورٹ میں وکیل نے کہا کہ ’’متبادل علاج کی دستیابی کو ہائی کورٹ میں سماعت نہیں کرنے کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے تھی۔ برائے کرم دیکھیں کہ کیا کہا گیا تھا۔ یہ بات شاہین باغ کے ضمن میں ایک ریلی میں کہی گئی تھی۔ غدار کا ذکر وہاں کے مظاہرین کے لیے تھا۔‘‘ وکیل نے مزید کہا کہ ’’مظاہرہ کرنے والا گروپ سیکولر ہو سکتا ہے، لیکن متعلقہ ایشو مذہبی تھا۔ برائے کرم دیکھیں کہ کیا کہا گیا تھا۔‘‘
Published: undefined
عرضی دہندہ کی طرف سے سینئر وکیل سدھارتھ اگروال نے تقریروں کے ذریعہ عدالت کا رخ کیا تھا۔ اگروال نے کہا کہ ’’یہ لوگوں کو سب سے خطرناک طرح کے تشدد میں شامل ہونے کی اپیل کر رہا تھا۔‘‘ اس پر سپریم کورٹ نے کہا ’’دیکھتے ہیں، اگر سنگین جرم بنتا ہے تو پولیس ایف آئی آر درج کرنے کے لیے مجبور ہوتی ہے۔ اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو انھیں 7 دنوں میں ابتدائی جانچ پوری کرنی ہوگی۔‘‘
Published: undefined
بہرحال، سپریم کورٹ کی ڈبل بنچ نے اسپیشل لیو پٹیشن پر نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا ہے۔ سبھی فریقین کو نوٹس کا جواب تین ہفتے کے اندر دینا ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ نے سماعت کے دوران مجسٹریٹ کے فیصلے کو غلط مانتے ہوئے کہا کہ پہلی نظر میں یہ غلط لگتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined