میرٹھ۔ ہاشم پورہ میں 2 مئی 1987 کو 40 مسلم نوجوانوں کے قتل کے 30 سال بعد اتر پردیش حکومت کی جانب سے منگل یعنی 27 مارچ کو پہلی بار ایک کیس ڈائری پیش کی گئی ہے جس میں نامزد پی اے سی اہلکاروں کے نام درج ہیں۔ پی سی اے اہلکاروں پر 40 مسلمانوں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔
مقدمہ کے 78 سالہ گواہ رنبیر سنگھ بشنوئی کی طرف سے تیار کیس ڈائری میں پولس اہلکاروں کے نام درج ہیں۔ واضح رہے کہ 2015 میں ثبوتوں کی عدم موجودگی کے سبب عدالت نے 16 ملزمین پی اے سی اہلکاروں کو بری کرنے کا حکم سنایا تھا۔
انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس ‘ کی رپورٹ کے مطابق بشنوئی تیس ہزاری کی سیشن کورٹ میں منگل کو پیش ہوئے اور اور کیس ڈائری عدالت کے سپرد کی۔ اس کیس ڈائری میں ان پی اے سی اہلکار وں کے نام درج ہیں جو 1987 میں میرٹھ پولس لائنز میں تعینات تھے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کی درخواست پر دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد کیس ڈائری کو ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
عدالت نے مارچ 2015 کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کی بنا پر 16 ملزمین پی اے سی اہلکار وں کو بری کر تے ہوئے کہا تھا ’’ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ہاشم پورہ محلہ کے 40 سے 45 افراد کا پی اے سی کےٹرک سے اغوا کیا گیا اور قتل کر کے انہیں گنگ نہر ، مراد نگر اور ہنڈن ندی میں پھینک دیا گیا ۔ لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قاتل پی سی اے اہلکار تھے۔ ‘‘
Published: 28 Mar 2018, 10:45 AM IST
بشنوئی نے عدالت میں جن 17 پی سی اے اہلکاروں کے نام پیش کئے ہیں ۔ ان میں پلاٹون کمانڈر سریندر پال سنگھ، ہیڈ کانسٹیبل نرنجن لال، کمل سنگھ، شرون کمار، کش کمار، ایس سی شرما، کانسٹیبل اوم پرکاش، سمیع اللہ، جے پال، مہیش پرساد، رام دھیان ، لیلا دھر، ہم بیر سنگھ، کنور پال، بدھ سنگھ ، بسنت ، ولبھ، نائیک رام بير سنگھ ۔ یہ ثبوت ایسے وقت پر آئے ہیں جب ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ چارج شیٹ رنبیر بشنوئی نے تیار کی تھی۔ انہوں نے عدالت میں کہا کہ ’’میں نے تمام دستاویزات کا معائنہ کر کے ہی چارج شیٹ داخل کی تھی۔ واقعہ کے دن یعنی 22 مئی 1987 کے روزنامچےکی نقل سے پولس لائنز میں تعینات پی اے سی اہلکاروں کے ناموں کا انکشاف ہوا۔ ‘‘
بشنوئی نے ایڈیشنل سیشن جج نویتا کماری باگھا کے سامنے کہا ’’چارج شیٹ داخل کرتے وقت میں نے تمام دستاویزات کی جانچ کی تھی اور ان کو میں نے چارج شیٹ کے ساتھ فائل کیا تھا۔ 6 صفحات پر مشتمل 22 مئی 1987 کے روزنامچے کی فوٹو کاپیاں بھی چارج شیٹ کے ساتھ منسلک کی تھیں۔ جس کی اصل کاپی اب عدالت کے سامنے پیش کی جا رہی ہے‘‘۔
بشنوئی نے عدالت میں کراس ایگزامینیشن کے دوران اصل دستاویزات میں سے پڑھا’’یہ کہنا غلط ہو گا کہ دستاویزات اصل نہیں ہیں۔ 22 مئی 1987 کے روز نامچہ نمبر 6 کے مطابق صبح 7.50 بجے پی اے سی پلاٹون پلوکھڈی آؤٹ پوسٹ، لساڑی گیٹ پولس اسٹیشن بھیجی گئی ۔ پولس کمانڈنٹ (پلاٹون کمانڈر) سریندر پال سنگھ پلوکھڈی آؤٹ پوسٹ گئے۔ اس وقت ان کے پاس 17رائفلیں،850راؤنڈس، ایک ریوالورجس میں 30راؤنڈس تھے اور وہ لوگ ایک ٹرک جس کا رجسٹریشن نمبر URU-1493تھا اور اس ٹرک کا ڈرایئور کانسٹیبل موکھام سنگھ تھا‘‘۔ اس نے مزید بتایا کہ ’’روزنامچہ نمبر 15کے مطابق رات 9بجے جس پی اے سی ٹیم کا اوپر ذکر ہے وہ پلوکھڈی سے واپس میرٹھ پولس لائن آ گئی۔ ریکارڈ کے مطابق ان افسران کو 22مئی1987کے دن کوئی اور ڈیوٹی نہیں دی گئی۔۔ یہ کہنا غلظ ہو گا کہ میں نے کوئی فرضی ریکارڈ تیار کیا ہے ‘‘۔
واضح رہے دہلی ہائی کورٹ میں سال 2015کے مئی ماہ میں جو اپیل فائل کی گئی تھی جس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اپیل میں قومی انسانی حقوق کمیشن(این ایچ آ ر سی) نے کہا تھا کہ پی اے سی اہلکار وں کے تعلق سے سی بی۔سی آئی ڈی نے جان بوجھ کر ثبوتوں کو چھپایا تھا۔
این ایچ آر سی نے ایک اور عرضداشت دائر کی تھی جس میں گزارش کی گئی تھی کہ پلاٹون کمانڈر صوبیدار سریندر پال سنگھ کی قیادت والی پی اے سی ٹیم کے 22مئی1987سے جڑے تمام دستاویزات جس میں ڈیوٹی رجسٹر، اٹینڈنس رجسٹر، لاگ بک اور دیگر دستاویزات شامل ہیں وہ پیش کئے جائیں۔
20فروری کو جسٹس ایس مرلی دھر اور آئی ایس مہتا کی بینچ نے کہا تھا ’’اس کی وجہ واضح نہیں ہے کہ کیوں دستاویزات ٹرائل کورٹ میں نہیں دکھائے گئے‘‘۔
این ایچ آر سی کی وکیل ورندا گروور کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ جب این ایچ آر سی نے درخواست کی تھی تب اتر پردیش حکومت نے روزنامچہ کی فوٹو کاپی دی تھی اور اس پر این ایچ آر سی نے سوال کیا تھا کہ فوٹو کاپی جس سے کی ہیں وہ اصل پیش کی جائیں۔ ورندا کا کہنا ہے کہ اب ہائی کورٹ کے حکم کے بعد جو اصل دستاویزسامنے آئے ہیں اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس ٹرک میں پی اے سی کے کون کون سے اہلکار موجود تھے اور اس معاملے میں ملزمین کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔
بشنوئی نے عدالت میں جن 17 پی سی اے اہلکاروں کے نام پیش کئے ہیں۔ ان میں پلاٹون کمانڈر سریندر پال سنگھ، ہیڈ کانسٹیبل نرنجن لال، کمل سنگھ، شرون کمار، کش کمار، ایس سی شرما، کانسٹیبل اوم پرکاش، سمیع اللہ، جے پال، مہیش پرساد، رام دھیان ، لیلا دھر، ہم بیر سنگھ، کنور پال، بدھ سنگھ ، بسنت ، ولبھ، نائیک رام بير سنگھ کے ہیں۔
یہ ثبوت ایسے وقت پر آئے ہیں جب ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔
Published: 28 Mar 2018, 10:45 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Mar 2018, 10:45 AM IST
تصویر: پریس ریلیز