رافیل معاہدہ پر اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کے دعوے کو بنیاد مانتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے میں سی اے جی رپورٹ کی جانچ پی اے سی کر چکی ہے اور اس رپورٹ کی ایک ترمیم شدہ (ریڈیکٹیڈ) شکل پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جا چکی ہے۔ ساتھ ہی وہ پبلک ڈومین میں بھی ہے۔ لیکن اس فیصلے کے بعد جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ رافیل معاملہ پر سی اے جی کی رپورٹ ہی نہیں آئی ہے اور پی اے سی کے پاس بھی کچھ نہیں بھیجا گیا ہے تو حکومت نے اس سلسلے میں عدالت میں ایک ترمیم پرمبنی حلف نامہ داخل کیا ہے۔ اس میں حکومت نے عدالت سے کہا کہ سیل بند لفافے میں جو بھی عدالت کے سامنے رکھا گیا ہے وہ پورے عمل کی جانکاری تھی۔
حکومت کے اس دعوے پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ملک میں آئین کے کئی ماہرین، سی اے جی اور پارلیمنٹ سے جڑے رہے کئی سبکدوش افسران کا کہنا ہے کہ سی اے جی کی ترمیم شدہ رپورٹ کا کوئی نظام نہیں ہے اور ایسی کوئی مثال بھی موجود نہیں ہے۔ ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی ایک خبر کے مطابق لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری پی ڈی ٹی آچاریہ نے صاف کیا ہے کہ سی اے جی رپورٹ کی ترمیم سے منسلک کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی مثال ہے۔ آچاریہ نے واضح طور پر کہا کہ آئین اور قوانین و ضوابط کے تحت ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ اس پورے عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سی اے جی کی جو بھی رپورٹس آتی ہیں، انھیں پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے جہاں سے اسے پی اے سی کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ اس رپورٹ پر سی اے جی، پی اے سی کی مدد کرتی ہیں۔ ان رپورٹ کو وزیر مالیات ایوان کے سامنے رکھتے ہیں۔
’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق سابق ڈپٹی سی اے جی ڈاکٹر بی پی ماتھر نے ریڈیکشن لفظ پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پہلے کبھی یہ لفظ نہیں سنا۔ انھوں نے بتایا کہ صرف ایک سی اے جی رپورٹ ہوتی ہے جسے آڈیٹرس تیار کرتے ہیں۔ ڈپٹی سی اے جی اس کی جانچ کرتے ہیں اور سی اے جی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس رپورٹ کو منظور کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سی اے جی رپورٹ ایک بار پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے بعد ایک عوامی دستاویز بن جاتی ہے۔ ماتھر نے صاف کہا کہ سی اے جی رپورٹ کو آخری شکل دیے جانے سے پہلے اس کی ڈرافٹ رپورٹ خفیہ ہوتی ہے اور اسے صرف حکومت سے شیئر کیا جاتا ہے اور اس کے جوابوں کو آخری رپورٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
حال ہی میں سبکدوش ہوئے ایک سی اے جی نے رازداری کی شرط پر ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ جو کچھ بھی چھپانا ہوتا ہے وہ رپورٹ برسرعام ہونے سے پہلے کیا جاتا ہے۔ اگر پی اے سی ان چھپائے گئے حصوں کے بارے میں سی اے جی سے جانکاری مانگتی ہے تو سی اے جی پوری رازداری کے ساتھ پارلیمانی کمیٹی کے سمجھنے کے لیے وہ جانکاری شیئر کرتا ہے۔
اس معاملے پر لوک سبھا کے ایک سابق جنرل سکریٹری نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انگریزی اخبار کو بتایا کہ ملک میں ریڈیکشن ابھی تک تو کبھی نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لفظ سسٹم کے لیے نیا ہے۔ شاید اب مستقبل میں مزید ریڈیکشنز دیکھنے کو ملے۔ پی اے سی میں تقریباً 11 سال تک افسر رہے لوک سبھا کے سابق ایڈیشنل سکریٹری دیویندر سنگھ نے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ پی اے سی، سی اے جی کی مدد سے رپورٹ کی جانچ کرتی ہے، اور ان نکات کا تعین کرتی ہے جن پر حکومت سے جواب چاہیے ہوتا ہے اور رپورٹ سے جڑے لوگوں کو اپنے سامنے پیش ہونے کو کہتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined