نئی دہلی: اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ہلدوانی فساد معاملے میں پولیس کی بربریت کا شکار ہوئی 6 خواتین سمیت 50 ملزمین کی ضمانت عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی عرضی منظور کر لی ہے۔ ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کو ہدایت دی ہے کہ ملزمین کو ایک ذاتی مچلکہ اور مشروط ضمانت کے ساتھ رِہا کیا جائے۔ ان ملزمین کو فروری کے دوسرے ہفتہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔
Published: undefined
اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ (جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری) نے یہ فیصلہ سنایا۔ بنچ نے 24 اگست کو اس معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا اور آج 50 ملزمین کو ضمانت پر رِہا کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔ پچاسوں ملزمین کی جانب سے ہائی کورٹ میں مجموعی طور پر چھ عرضیاں داخل کی گئی تھیں جن پر سات سماعتیں ہوئیں۔ عدالت نے آج اپنے زبانی فیصلے میں ملزمین کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا اور عدالت کا تحریری فیصلہ جلد ہی فریقین کو مہیا کرایا جائے گا۔
Published: undefined
متاثرین کی قانونی مدد کرنے والے ادارہ جمعیۃ علما ہند کی طرف سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشن نے کہا کہ ایجنسی نے ملزمین کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف یو اے پی اے (انسداد غیر قانونی سرگرمی ایکٹ) لگایا تھا، تاکہ ملزمین کو ضمانت سے محروم کیا جا سکے اور جانچ ایجنسی کو جانچ کے لیے زیادہ وقت دیا جا سکے۔ جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری کو سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشن نے یہ بھی بتایا کہ سیشن کورٹ نے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت عرضی خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوک سبھا انتخاب کی وہج سے فرد جرم داخل نہیں کیا جا سکا۔ وقت رہتے ملزمین کے خلاف معاملہ درج کر لیا جائے، اس لیے پولیس کو زیادہ وقت دینا غیر قانونی نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ نے یہ بھی کہا کہ سیشن کورٹ کا یہ اظہار غیر آئینی اور غیر ضروری ہے۔ قانون کے مطابق گرفتار ملزم کے خلاف وقت پر فرد جرم داخل کرنا لازمی ہے، ورنہ ملزم ڈیفالٹ ضمانت کا حقدار ہوگا، ملزم پر لگے الزام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
Published: undefined
جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے سماعت کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈیفالٹ ضمانت ملزم کا آئینی حق ہے جسے اس سے چھینا نہیں جا سکتا۔ اس کے باوجود ڈیفالٹ ضمانت کا حق ملزم کو ملتا رہے گا۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ سے ضمانت کے بعد پولیس نے سیشن کورٹ میں فرد جرم داخل کر دیا ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشن کا کہنا ہے کہ جانچ ایجنسی نے 90 دنوں کی مدت پوری ہونے کے بعد عدالت میں فرد جرم داخل نہیں کیا اور عدالت سے 28 دن مزید مانگے جو قانوناً غلط ہے۔ اس لیے کریمنل پینل کوڈ کی دفعہ 167 اور یو اے پی اے کی دفعہ 43 ڈی (2) کے تحت ضمانت نہ ملنے پر ملزم کو جیل سے رہا کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined