قومی خبریں

کنگھی سے نکلے بالوں نے بجنور باشندہ سلیم احمد کو بنا دیا کروڑ پتی، بے مثال ہے کامیابی کی یہ داستان

سلیم احمد کا کہنا ہے کہ ’’ابھی ہم کئی ممالک میں بال اور وِگ کی سپلائی کر رہے ہیں، ہر دن میں ایک نئی بات سیکھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ جب تک میں کام کرتا رہوں گا آگے بڑھتا رہوں گا۔

<div class="paragraphs"><p>سلیم احمد، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سلیم احمد، تصویر آئی اے این ایس

 

مغربی اتر پردیش کے سینکڑوں گاؤں اور قصبوں کے گلیاروں میں دن میں کئی مرتبہ اکثر ایک آواز سنائی پڑتی ہے۔ آواز کچھ یوں ہوتی ہے ’’کنگھی سے نکلے ہوئے بال 3000 روپے کلو، 10 گرام 30 روپے کے، 50 گرام 150 روپے کے۔‘‘ اب یہ آواز معمول کی بات ہو گئی ہے، لیکن شروع میں جب ایسی آواز کوئی لگاتا تھا تو خواتین آپس میں باتیں کرنے لگتی تھیں اور ایک دوسرے سے سوالیہ انداز میں پوچھتی تھیں کہ ’’بال بکتے بھی ہیں!‘‘۔ کچھ خواتین ہنستے ہوئے آپس میں یہ بھی کہتی تھیں کہ اگر ایسا ہے تو وہ ہزاروں روپے کوڑے میں پھینک چکی ہیں۔

Published: undefined

سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ خریدے گئے کنگھی سے یہ نکلے ہوئے بال آخر جاتے کہاں ہیں اور ان کا کیا ہوتا ہے! دراصل کنگھی سے نکلے ہوئے بال بجنور کے سیوہارا پہنچتے ہیں جہاں سلیم احمد انھیں خرید لیتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ بجنور کے صرف آٹھویں درجہ تک پڑھے 39 سالہ نوجوان سلیم احمد نے 700 روپے میں ایک کاروبار کی شروعات کی تھی۔ کنگھی سے نکلے بے کار بالوں کا بزنس کر کے اب وہ کروڑوں روپے کا کاروبار کھڑا کر چکے ہیں۔ سلیم احمد کی کامیابی ایک مثالی داستان ہے۔ ایک وقت تھا جب سلیم روزگار کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے تھے، لیکن اب وہ 1200 خواتین کو روزگار مہیا کرا رہے ہیں۔ کنگھی سے نکلے ہوئے بالوں کا کاروبار کر بجنور کے سیوہارا میں سلیم احمد نے کامیابی کی ایک نئی داستان لکھ دی ہے۔ محض 15 سال کی عمر میں گھر والوں کا سہارا بننے کی جستجو میں دہلی کام کرنے گئے سلیم احمد نے اب بجنور کے سیوہارا کو ہی ’دہلی‘ بنا دیا ہے۔

Published: undefined

سلیم احمد کہتے ہیں کہ سیوہارا میں ہی انھوں نے کاروبار اس لیے شروع کیا کیونکہ آس پاس کے درجنوں گاؤں کے لوگوں کو روزگار کے لیے بھٹکنا نہ پڑے۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب انھیں ان کی کوششوں کے لیے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 700 روپے کے سرمایہ سے سالانہ 3 کروڑ روپے کے ٹرن اوور تک پہنچنا خود کو ثابت کرنے کے جنون کا ہی نتیجہ ہے۔ سلیم احمد بتاتے ہیں کہ اس بزنس کا آئیڈیا انھیں دہلی میں ہی ملا جہاں وہ ’وِگ‘ بنانے والے ایک کارخانہ میں بطور مزدور کام کرتے تھے۔ وہاں ان کے مالک فائنل ٹچ دیتے وقت سبھی ورکرس کی چھٹی کر دیتا تھا۔ وہاں میں نے سب کچھ سیکھا لیکن فائنل ٹچ دینا نہیں سیکھ پایا۔

Published: undefined

سلیم احمد کنگھی سے نکلے ہوئے بے کار بالوں کو مختلف مراحل سے گزار کر ’وِگ‘ بناتے ہیں۔ وِگ بازار پر چین، کوریا اور بنگلہ دیش کا قبضہ ہے۔ چین اور کوریا کے مال ملائم اور اعلیٰ معیاری ہوتے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش کا مال سستا ہے۔ سلیم احمد بتاتے ہیں کہ دہلی میں رہتے وقت مجھے اس بات کا پتہ چلا، لیکن ایک بات سب سے اہم تھی کہ ہندوستان کے بال کی ڈیمانڈ بہت تھی۔ اس بات کو سمجھ کر میں نے ملازمت چھوڑ دی اور بجنور میں اپنا کام شروع کرنے کی پیش قدمی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں آٹھویں تک پڑھا لکھا ہوں، میری بیوی مجھ سے زیادہ پڑھی لکھی ہے۔ مارکیٹ کو سمجھنے میں اس نے بھی میری مدد کی۔‘‘

Published: undefined

سلیم نے کاروبار شروع کرتے ہوئے پہلی بار 500 روپے کے ’گولی بال‘ اور 200 روپے کا کیمیکل (بال دھونے کے لیے) خریدا۔ اس سے جو بھی تیار ہوا وہ کچھ منافع کے ساتھ فروخت ہو گیا۔ سلیم بتاتے ہیں کہ یہ پہلے کام کا سب سے کامیاب تجربہ تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’’کرایہ کے پیسے امی نے پاپا سے چھپا کر دیئے تھے کیونکہ پاپا کہتے تھے کہ اس کام میں کچھ نہیں رکھا ہے، مجھے کچھ دوسرا کام کرنا چاہیے۔‘‘ سلیم کا کہنا ہے کہ کاروبار کو بڑھانے کے لیے انھوں نے ایک ترکیب سوچی اور یہ کہنا شروع کیا کہ وہ جو ’وِگ‘ بناتے ہیں اسے فلم انڈسٹری میں بھیجا جاتا ہے۔ یعنی اس کا استعمال ہیرو کرتے ہیں۔ اس سے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی اور نوجوان ساتھ مل کر کام کرنے لگے۔

Published: undefined

سلیم احمد اپنے کاروبار کے تعلق سے بتاتے ہیں کہ میں نے 2000 میں یہ کاروبار شروع کیا اور اس کے بعد 2005 تک میرے پاس 100 لوگوں کا گروپ بن گیا۔ اب تو 1500 لوگوں کی ٹیم بن گئی ہے جن میں 1200 خواتین ہیں۔ سلیم کہتے ہیں کہ 2005 میں جب ہم کھڑے ہو رہے تھے تو چین اور بنگلہ دیش نے بازار پر دبدبہ بنا لیا تھا، لیکن ہم ہندوستانی بال کے معیار کے دَم پر بچ گئے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ بال عموماً تین طرح کے ہوتے ہیں۔ جو بال بہ آسانی مل جاتے ہیں اسے ’گولی بال‘ کہا جاتا ہے۔ اسے خواتین سر سے نکال کر گولی بنا کر پھینک دیتی ہیں۔ دوسرا ’ریمی ہیئر‘ ہوتا ہے، اور سب سے قیمتی ہوتا ہے ’ورجن ہیئر‘۔ سلیم کا کہنا ہے کہ وَرجن ہیئر وہ بال ہوتا ہے جس میں نہ ہی کوئی رنگ لگایا گیا ہو اور نہ ہی ڈائی کیا گیا ہو۔ ہم بالوں کو خرید کر الگ الگ حصوں میں بانٹ دیتے ہیں، اسے سلجھاتے ہیں، اور پھر کیمیکل سے دھوتے ہیں۔ اس عمل کو 1000 سے زائد خواتین انجام دیتی ہیں۔ اس کے بعد کاریگر سائز کی بنیاد پر کنگھی سے بالوں کو الگ کرتے ہیں، مشین میں دھلائی کرتے ہیں اور بال کے سرے پر موجود سر کا چمڑا ہٹاتے ہیں۔

Published: undefined

سلیم مزید ایک دلچسپ بات بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وِگ مارکیٹ‘ میں ہندوستانی بازار کی مضبوطی ضرور بڑھ رہی ہے، لیکن ’پیچ مارکیٹ‘ میں اب بھی کوریا اور چین کا دبدبہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوریا کا پیچ زیادہ کمفرٹ ہے۔ سلیم کے مطابق اب وِگ مارکیٹ میں اچھا کرنے کے بعد ان کا اگلا ہدف پیچ کو کیچ کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ابھی ہم کئی ممالک میں بال اور وِگ کی سپلائی کر رہے ہیں۔ ہر دن میں ایک نئی بات سیکھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جب تک میں کام کرتا رہوں گا آگے بڑھتا رہوں گا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آج میرا کام سینکڑوں کنبوں کو چلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

سیوہارا باشندہ فہیم احمد شیخ کا کہنا ہے کہ سلیم احمد سیوہارا کی پہچان بن چکے ہیں۔ یہاں انھوں نے بالوں کے کاروبار کو بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ خصوصاً انھوں نے خواتین کو مضبوطی دینے کا کام کیا ہے، انھیں خود کفیل بنایا ہے۔ ساتھ ہی ان کی کوشش یہ بھی بتاتی ہے کہ روزی روٹی کی تلاش میں شہر جانا ضروری نہیں ہے۔ ایک اچھا آئیڈیا اور محنت کا ساتھ ہو تو خشکی میں بھی درخت کو اگایا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

سلیم احمد کی کمپنی میں کام کرنے والی 45 سالہ نیلم کہتی ہیں کہ انھیں اس کام سے گھر کو چلانے میں بہت مدد ملی ہے۔ اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر گھر چلاتی ہے۔ 20 سالہ خورشیدہ بھی سلیم احمد کی کمپنی میں کام کرتی ہے۔ وہ کمائی کر کے اپنی شادی کے لیے پیسہ جمع کر رہی ہے۔ گڈو نامی ایک خاتون بھی اسی کمپنی میں روزگار سے جڑی ہوئی ہے۔ چار سال قبل اس کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اور بالوں کا کاروبار ہی اس کے لیے نعمت ثابت ہوا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined