تلنگانہ میں کانگریس کی شکست کے اسباب کا تجزیہ الگ الگ طریقے سے کیا جا رہا ہے اور اس دوران ایک بات ایسی ہے جس پر خاص توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ وہ بات ہے ووٹر لسٹ سے لاکھوں لوگوں کے نام کا غائب ہونا۔ تلنگانہ میں ووٹر لسٹ سے تقریباً 22 لاکھ لوگوں کے نام ندارد تھے۔ اس تعلق سے انتخابی کمیشن نے صرف ’سوری‘ کہہ کر کام چلا لیا۔ لیکن اس سے آخری نتائج پر کیا اثر پڑ سکتا ہے، اسے کوئی بھی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔
ووٹوں کی گنتی کے دوران رپورٹنگ کرنے والی میڈیا ٹیموں سےمشہور ہستیاں،معروف و مقبول کھلاڑی، یہاں تک کہ ایک آئی پی ایس افسر تک نے ووٹر لسٹ میں نام نہ ہونے کی شکایت کی۔ بیڈمنٹن کھلاڑی جوالا گٹا نے تو اپنا نام ووٹر لسٹ میں نہ ہونے پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ بھی کیا تھا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی تب ہوئی جب ریاست کے چیف الیکشن افسر رجت کمار نے پر یس کانفرنس میں اس تعلق سے معافی مانگ لی۔ اس سے پہلے انھوں نے خود ہی بتایا تھا کہ ستمبر سے پہلے ریاست میں 2.68 کروڑ ووٹر تھے جب کہ ریویو ووٹر لسٹ میں 2.61 کروڑ لوگ تھے۔ ویسے، اس طرح سے تعداد کم ہونے پر خود الیکشن کمیشن کو حیران ہونا چاہیے تھا، لیکن لگتا ہےاس معاملے کو اس نے بہت ہلکے ڈھنگ سے لیا۔ کمار کا کہنا تھا کہ آئندہ لوک سبھا انتخاب سے پہلے اس طرح کی خامیوں کو دور کر لیا جائے گا۔
’قومی آواز‘ نے راجستھان میں اس طرح کی گڑبری کے تعلق سے اکتوبر ماہ میں ہی خبر شائع کی تھی۔ راجستھان میں تقریباً 15 فیصد ووٹرس کا نام ووٹنگ لسٹ سے غائب تھا اور ان میں بڑی تعداد اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے ووٹرس کا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے ووٹر لسٹ میں اپنا نام تلاش کرنا شروع کیا تھا اور اپنے نام اس لسٹ میں شامل بھی کرائے تھے۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ تلنگانہ میں بھی اس طرح سے مہم چلائی جاتی تو حالات شاید الگ ہوتے۔ تلنگانہ میں اس طرح نام غائب ہونے پر حقوق انسانی کارکن کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے کہ ’’اس حالت کو ملک بھر کے منظرنامے میں دیکھیں تو مسئلہ کہیں زیادہ سنگین نظر آئے گا۔ اس طرح کی تعداد انتخابی نتائج الٹ دینے تک کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ تو جمہوریت پر سرجیکل اسٹرائیک ہے۔‘‘
تلنگانہ ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر این اُتم کمار نے بھی کہا ہے کہ ان کی پارٹی ووٹر لسٹ سے 22 لاکھ ووٹروں کے نام ندارد ہونے کے خلاف عدالت کا رخ کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح لوگوں کے نام ہٹانا لوگوں کو ان کی حق رائے دہی سے محروم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
Published: undefined
ویسے یہ تو لگتا ہی ہے کہ کانگریس کو خود بھی اس سمت میں پہلے سے ہی سرگرم ہونا چاہیے تھا، یعنی یہ پارٹی کی جانب سے کی گئی غلطی کہی جا سکتی ہے۔ حیدر آباد میں نیشنل اکیڈمی آف لیگل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ (نلسر) کے پروفیسر ہراتھی وگیسن کا یہ کہنا درست ہے کہ کانگریس نے یہاں اتحاد کا خاکہ بنانے میں بھی کافی تاخیر کر دی۔ اس نے انتخابات سے کچھ ہی ہفتے پہلے اسے آخری شکل دی اور اس سے اتحاد میں شامل پارٹیوں کو اپنی باتیں اپنے پروگراموں کے بارے میں ووٹروں کو بتانے اور انھیں مطمئن کرنے کا مناسب موقع نہیں مل پایا۔
اتنا ہی نہیں، اتحاد کے امیدواروں سے متعلق بھی آخری وقت تک کشمکش کی حالت رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹکٹوں کو ٹھیک طریقے سے تقسیم نہ کرنے اور کچھ کمزور امیدوارں کے انتخاب کا اثر نتائج پر پڑا۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اتحاد کی کچھ پارٹیوں سے ووٹروں کی ناخوشی اس سے ظاہر ہے کہ کانگریس کے ووٹروں کے ایک بڑے طبقے نے بھی ان کی حمایت کرنے سے پرہیز کیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined