گیانواپی تنازعہ نے آج اس وقت ایک نیا رخ اختیار کر لیا جب بودھ مذہب کے ایک پیشوا نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر دعویٰ کیا کہ گیانواپی نہ ہی مسجد ہے اور نہ ہی مندر، بلکہ یہ بودھ مٹھ ہے۔ بودھ مذہبی پیشوا گرو سُمِت رتن بھنتے کے مطابق ملک میں کئی ایسے مندر ہیں جو بودھ مٹھوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ گیانواپی میں پائے گئے ترشول اور سواستک کے نشان بودھ مذہب کے ہیں۔ کیدارناتھ یا گیانواپی میں جسے جیوترلنگ بتایا جا رہا ہے، وہ بودھ مذہب کے استوپ ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ حقیقت یہی ہے کہ گیانواپی نہ تو مسجد ہے اور نہ ہی مندر، یہ بودھ مٹھ ہے۔
Published: undefined
دراصل سُمِت رتن بھنتے نے ملک میں بودھ مٹھوں کی دریافت شروع کی ہے۔ انھوں نے اس تعلق سے بتایا کہ ایک نئی دریافت کا عمل شروع کیا گیا ہے جس میں پتہ کیا جا رہا ہے کہ کہاں کہاں جین اور بودھ مٹھوں کو توڑ کر مندر یا دیگر مذہبی مقامات بنائے گئے ہیں۔ ایسے سبھی مندروں اور مسجدوں کو ان کی پہلی والی شکل میں آنا چاہیے۔ سُمِت رتن کا کہنا ہے کہ بودھ مذہب کے ماننے والوں کی تعداد بھی یہی چاہتی ہے۔
Published: undefined
بودھ مذہبی پیشوا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہم کیدارناتھ، بدری ناتھ سمیت دیگر مندروں کو لے کر بھی عرضی داخل کریں گے۔ سناتن بودھ مذہب سب سے قدیم ہے۔‘‘ گیانواپی کو لے کر انھوں نے کہا کہ اے ایس آئی نے اگر ٹھیک طرح سروے کیا تو بودھ مٹھ ہی وہاں پایا جائے گا، اور اگر ایسا ہو تو گیانواپی ہمیں سونپ دیں۔ سُمِت رتن کے مطابق مذہب اسلام تقریباً 1500 سال قبل آیا اور ہندو مذہب 1200 سال پہلے آیا ہے، لیکن بودھ مذہب تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے کا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز