گروگرام (گڑگاؤں) میں نماز جمعہ کو لے کر جو تنازعہ شروع ہوا تھا وہ کسی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہندو تنظیموں سے وابستہ افراد مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے کھلے میں نماز ادا کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ گزشتہ نماز جمعہ میں رخنہ بھی ڈالا گیا تھا۔ اس دفعہ ایسی صورت حال پیش نہ آئے اس لئے گروگرام کی ضلع انتظامیہ نے مسلم طبقے سے ایسے مقامات کی تفصیل طلب کی ہے جہاں انہیں نماز ادا کرنی ہے۔
واضح رہے کہ کھلے میں نماز ادا کرنے پر تنازعہ 20 اپریل کو اس وقت شروع ہوا تھا جب گڑگاؤں کے سیکٹر 53 واقع وزیرآباد کے ایک میدان میں بجرنگ دل اور وی ایچ پی کارکنان نے مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے سے روک دیا تھا۔ شکایت کے بعد 6 نوجوانوں کو پولس نے گرفتار کر لیا تھا چونکہ اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہو گیا تھا۔لیکن بعد میں گرفتار شدگان کو ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا آج کے دور میں ہمیں کھلی جگہ پر نمازِ جمعہ ادا کرنی چاہیے؟
27 اپریل کو سخت سیکورٹی کے درمیان اسی مقام پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی ہوئی لیکن گزشتہ جمعہ یعنی 4 مئی کو وہاں نماز جمعہ ادا نہیں ہو سکی۔ اتنا ہی نہیں وزیر آباد واقع میدان میں ہندو تنظیموں سے وابستہ کچھ افراد نے پوجا کرنے کا بھی اعلان کیا تھا لیکن پولس انتظامیہ نے ان شرپسندوں کو ایسا کرنے سے روک دیا۔
دریں اثنا ہندو تنظیموں نے ان 6 نوجوانوں کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا جنہیں پولس نے نماز میں خلل ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ مظاہرین نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ کھلی زمین پر نماز جمعہ پڑھنے پر روک لگے ا ور ان 6 نوجوانوں کے خلاف درج کیس واپس لئے جائیں۔ واضح رہے کہ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو کرانتی دل، گئورکشک دل اور شیوا سیوا وغیرہ سخت گیر ہندو تنظیموں نے ’سینیکت ہندو سنگھرش سمیتی‘ بنا لی ہے اور اسی کے بینر تلے یہ لوگ نماز پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Published: 10 May 2018, 12:34 PM IST
اب ان سخت گیر ہندو تنظیموں کی انتظامیہ سے مانگ ہے کہ شہر کے صرف 5 مقامات پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے اور ان میں سے کوئی بھی جگہ کسی مندر کے دو کلومیٹر کے دائرے میں نہیں ہونی چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد،عیدگاہ میں ہی نماز پڑھیں مسلمان، کھٹر کا متنازعہ بیان
انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گروگرام کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) نے مسلم طبقہ سے ایسے مقامات کی فہرست طلب کی ہے جہاں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے، بتایا جا رہا ہے کہ آئندہ جمعہ یعنی 11 مئی کو ادا کی جانے والی نماز جمعہ کے دوران حفاظت فراہم کرنے کے مقصد سے یہ تفصیل طلب کی گئی ہے۔
اس حساس معاملہ پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بھی لب کشائی کی اور بالواسطہ طور پر ہندو تنظیموں کے حق میں کھڑے نظر آئے ۔ انہوں نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ مساجد، عید گاہوں اور نجی مقامات پر ہی نماز ادا کی جانی چاہئے۔ کھٹر نے یہ بھی کہا تھا کہ نظم ونسق کی صورت حال برقرار رہے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا۔
اس بیان کے بعد ہریانہ وقف بورڈ نے کہا کہ اس کی 20 سے زیادہ املاک پر غیر قانونی قبضے کر لئے گئے ہیں۔ وقف بورڈ نے گڑگاؤں انتظامیہ سے گہار بھی لگائی کہ وقف املاک کو قبضوں سے آزاد کرایا جائے۔
غور طلب ہے کہ ہریانہ بھر میں بڑے پیمانے پر تعمیرات کا کام چلتا رہتا ہے۔ صرف گروگرام میں ہی 1200 سے زیادہ مقامات پر عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سڑک، انڈرپاس اور فلائی اوروں کی تعمیر بھی چلتی رہتی ہے۔ ان تعمیراتی کاموں کے لئے بڑی تعداد میں مزدور درکار ہوتے ہیں اور ان میں بڑی تعدادا مسلم مزدوروں کی بھی ہوتی ہے۔ وہی لوگ اکثر اپنے جائے کار کے آس پاس کھلے میں نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز جمعہ میں کمپنیوں میں کام کرنے والے مسلم ملازمین اور دکاندار بھی شامل ہوتے ہیں۔
Published: 10 May 2018, 12:34 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 May 2018, 12:34 PM IST
تصویر: پریس ریلیز