نئی دہلی: گجرات کے موربی میں اتوار کے روز ایک معلق پل گرنے سے کم از کم 141 افراد ہلاک ہو نے کی خبر ہے۔ جبکہ اطلاع ملنے تک 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کئی لوگ اب بھی لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔ نیوز پورٹل اے بی پی پر شائع خبر کے مطابق حادثے کے وقت پل پر 500 سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پل میں ایسا کیا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ وہاں موجود تھے جبکہ اس پل کی گنجائش 100 افراد تھی۔
Published: undefined
دریائے مچھو پر بنائے گئے اس پل کی تاریخ تقریباً 142 سال پرانی ہے۔ اس پل کی بات کریں تو یہ گجرات کے بڑے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ ہر روز بڑی تعداد میں لوگ یہاں آتے تھے کیونکہ یہ پل ہوا میں معلق تھا اور یہ ہوبہو رشی کیش کے رام اور لکشمن جھولے کی طرح نظر آتا تھا۔ خبر کے مطابق اتوار کو اس پل پر 500 سے زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے اور یہ پل ان کا بوجھ برداشت نہ کر سکا، جس کی وجہ سے پل ٹوٹ کر دریا میں گر گیا اور لوگ بہہ گئے۔
Published: undefined
موربی میں دریائے مچھو پر اس پل کی تعمیر 1880 میں مکمل ہوئی تھی اور اس کا افتتاح ممبئی کے گورنر رچرڈ ٹیمپل نے کیا تھا۔ اس وقت اسے بنانے میں تقریباً 3.5 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس پل کی تعمیر کا سارا سامان برطانیہ سے آیا تھا۔ تعمیر سے لے کر حادثے سے پہلے تک اس پل کی کئی بار مرمت کی گئی۔ اس پل کی لمبائی 765 فٹ ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ پل 1.25 میٹر چوڑا اور 230 میٹر لمبا تھا۔ یہ ہندوستان کے قدیم ترین پلوں میں سے ایک ہے، اس لیے یہ ایک سیاحتی مقام بن گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس پل پر جانے کے لیے 15 روپے فیس لی جاتی رہی ہے۔
Published: undefined
یہ پل مرمت کی وجہ سے گزشتہ 6 ماہ سے عوام کے لیے بند تھا اور اسے 25 اکتوبر سے دوبارہ کھولا گیا تھا۔ ان 6 ماہ میں پل کی مرمت پر تقریباً 2 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ پل کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اجنتا مینوفیکچرنگ گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کے اوریوا گروپ کے پاس ہے۔ اس گروپ نے موربی میونسپلٹی کے ساتھ مارچ 2022 سے مارچ 2037 تک 15 سال کا معاہدہ کیا تھا، اس معاہدے کی بنیاد پر اس پل کی دیکھ بھال، صفائی، حفاظت اور ٹول وصولی جیسی تمام ذمہ داری اوریوا گروپ کے پاس ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined