این سی آر ٹی کے نصاب میں بھگواکاری کا ایک نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق این سی ای آر ٹی کے بارہویں درجہ کی کتاب کا نیا ایڈیشن شائع ہوا ہے جس میں 2002 کے گجرات فسادات سے متعلق باب میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اس باب میں 2002 کے فسادات کو مسلم مخالف ماننے سے انکار کیا گیا ہے اور اسے محض ’گجرات فساد‘ لکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے کے ایڈیشن میں 2002 کے گجرات فسادات کے لیے ’مسلم مخالف‘ یا ’اینٹی مسلم‘ لفظ کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ تبدیلی اقلیتی طبقہ میں غم و غصے کی لہر پیدا کرنے والا ہے کیونکہ گجرات میں ہوئے فسادات میں اقلیتی طبقہ کے لاتعداد لوگ نشانہ بنائے گئے تھے اور ان کا بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق این سی ای آر ٹی نے ’آزادی کے بعد سیاست‘ کے صفحہ نمبر 187 پر گجرات فسادات کا تذکرہ ہے۔ یہاں سے’ مسلم مخالف ‘لفظ ہٹا دیا گیا ہے جب کہ اسی صفحہ پر 1984 کے فسادات کے لیے ’سکھ مخالف فساد‘ لکھا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پہلے گجرات فسادات والے پیراگراف میں لکھا گیا تھا ’’فروری-مارچ 2002 میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف تشدد ہوا‘‘ لیکن اب لکھا گیا ہے کہ ’’فروری-مارچ 2002 میں گجرات میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا۔‘‘
اس سلسلے میں انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے خبر شائع کی ہے جس میں انھوں نے اس تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کا فیصلہ این سی ای آر ٹی کے ذریعہ ٹیکسٹ بک ریویو کے دوران لیا گیا۔ یہاں یہ بتانا لازمی ہے کہ این سی ای آر ٹی ایک خودمختار ادارہ ہے جس کو فروغ انسانی وسائل کی وزارت مشورے دیتی ہے۔ یہ مشورہ گزشتہ سال سی بی ایس ای کے ذریعہ بھی دیا گیا تھا۔
این سی ای آر ٹی کے افسران نے نصاب میں کی گئی اس تبدیلی سے متعلق بتایا کہ جو نصاب منظور شدہ ہے اس میں ’مسلم مخالف‘ لفظ کا استعمال نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں گجرات فسادات سے متعلق جو اعداد و شمار پیش کیےتھے اس میں کہا گیا تھا کہ فسادات میں 790 مسلمان اور 254 ہندو مارے گئے تھے جب کہ 223 غائب بتائے گئے تھے۔ ان فسادات میں 2500 لوگوں کے زخمی ہونے کی بھی بات کہی گئی تھی۔
یہ تو تھی این سی ای آر ٹی کے بارہویں کے نصاب میں گجرات فسادات کے مسلم مخالف بتائے جانے سے انکار کی۔ اس کے علاوہ نصاب میں کچھ چیزیں جوڑی بھی گئی ہیں جس کی طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ بارہویں کی کتاب میں ’سوچھ بھارت ابھیان‘، ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ اور ’ڈیجیٹل انڈیا‘ جیسی مہموں کا اضافہ کیا گیا ہے جو مودی حکومت کی پہچان بتائی جاتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، نوٹ بندی سے متعلق ایک باب بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ مودی حکومت کا ’فلاپ‘ تجربہ رہا۔ بلکہ اس تجربے نے تو کئی لوگوں کی جانیں لے لیں اور بے شمار چھوٹے کاروباریوں کو سڑک پر لا کھڑا کیا۔
اس سے قبل مہاراشٹر ایجوکیشن بورڈ نے بھی اپنے نصاب میں بھگواکاری کی تھی اور مغل حکمرانوں کی تفصیلات کو محض 3 لائنوں تک محدود کر دیا تھا۔ اسی طرح بی جے پی حکمراں ریاستوں میں پرائمری کلاس کی کتابوں میں بھی مسلم مخالف اور بھگواکاری کو فروغ دینے والی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined