اسمبلی انتخابات کے نتائج جو بھی رہے ہوں لیکن کانگریس نے گجرات میں بی جے پی کو اوپر سے نیچے تک جھکجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ ای وی ایم پر بھروسہ اور انتخابی عمل پر سوال کرنا بے معنی ہے یا نہیں۔ ٹی وی اسٹوڈیو اور اپنے اے سی دفتروں میں بیٹھے سیاسی تجزیہ نگار تو یہاں تک کہنے لگے کہ جن لوگوں نے ای وی ایم پر سوال اٹھائے انھیں معافی مانگنا چاہیے کیونکہ گجرات میں تو بالکل کانٹے کی ٹکر رہی، اور اس طرح کا مقابلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے اور ای وی ایم بالکل صحیح طریقے سے کام کرتی ہے۔
ہاں، یہ ممکن ہے کہ ای وی ایم بغیر کسی پریشانی کے کام کرے، لیکن ای وی ایم میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، یہ ہمیں اسی وقت پتہ چلے گا جب انتخابی کمیشن ای وی ایم کا ایمانداری کے ساتھ آڈٹ کرے اور اس کی رپورٹ منظر عام پر لائے۔ اتنا ہی نہیں انڈیپنڈنٹ آبزرور کی موجودگی میں ہماچل پردیش اور گجرات دونوں ریاستوں سے مناسب تعداد میں ای وی ایم اور وی وی پیٹ لیے جائیں اور ان کی جانچ ہو۔ انتخابی کمیشن اس کے لیے وقت لے سکتا ہے، لیکن اگر ایسا آڈٹ ہوتا ہے تو آئندہ عام انتخابات میں اس مشین پر انگلیاں نہیں اٹھیں گی۔
گجرات میں سورت، راج کوٹ اور وڈودرا میں بی جے پی کی یکطرفہ جیت سے شبہ تو پیدا ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ بھی گجرات میں انتخابی جنگ کے دوران بھی ایسے کئی اشارے ملے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ مثلاً 18 دسمبر کو دوپہر تقریباً 1.17 بجے انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ پر دکھایا جا رہا تھا کہ بی جے پی کے حصے میں 49 فیصد ووٹ آئے ہیں جب کہ کانگریس کے حصے میں 41.5 فیصد۔ دو گھنٹے بعد بھی یہ ووٹ شیئر کم و بیش اسی طرح رہے، لیکن جب سیٹوں کی طرف جاتے ہیں تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ بی جے پی 9 سیٹیں جیت چکی ہے اور 93 پر آگے ہے، جب کہ کانگریس 6 سیٹیں جیت چکی ہے اور 68 پر آگے ہے۔
دو گھنٹے بعد انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ نے دکھایا کہ بی جے پی 39 سیٹ جیت چکی ہے اور کانگریس 32۔ اس وقت تک سبھی نیوز چینل بی جے پی کے حق میں گجرات انتخابات کے نتائج کا اعلان کر چکے تھے۔ چینلوں نے بی جے پی کو 110 سیٹیں دیں اور کانگریس کو تقریباً 70۔ ابھی چونکہ کچھ مزید اعداد و شمار اور جانکاریاں باقی ہیں جس سے ووٹ شیئر اور سیٹوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ ہو سکتا ہے، ووٹ شیئر اور سیٹوں میں اتنے کم فرق کو دیکھ کر کچھ سوال تو اٹھتے ہی ہیں۔
بی جے پی پہلے سے دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ گجرات میں زبردست اکثریت سے فتحیاب ہوگی۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے راجیہ سبھا کےرکن پارلیمنٹ سوپن داس گپتا نے تو 14 دسمبر کو ہی ٹوئٹ کر کے کہہ دیا تھا کہ بی جے پی کی گجرات یونٹ کو بھروسہ ہے کہ وہ سورت کی سبھی 12 سیٹیں جیتے گی، اور ایسا ہی ہوا۔ بی جے پی نے سورت کی 12 سیٹیں جیت لیں، اس سورت میں جہاں جی ایس ٹی کے خلاف لاکھوں ٹریڈر سڑکوں پر اتر آئے تھے اور جی ایس ٹی و نوٹ بندی نے جس سورت کے ٹیکسٹائل اور ڈائمنڈ انڈسٹری کی کمر توڑ دی تھی۔
Published: 18 Dec 2017, 8:05 PM IST
لیکن داس گپتا کے ٹوئٹ کے اگلے ہی دن بی جے پی کے ایک دیگر ممبر پارلیمنٹ سنجے کاکڑے نے پونے میں کہا کہ انھوں نے خود کا جو گجرات سروے کرایا ہے اس کے مطابق گجرات میں بی جے پی ہارنے والی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بی جے پی کو منفی تشہیر کا نقصان ہوگا۔ یوں بھی گجرات میں پوری تشہیر کے دوران یہ رپورٹ آتی رہی اور ویڈیو شیئر ہوتے رہے کہ سورت میں بی جے پی اور اس کے کارکنان کو انتخابی تشہیر کرنے میں بے حد پریشانی ہو رہی ہے۔ ایسے ویڈیو بھی سامنے آئے جس میں ٹریڈر بی جے پی کارکنان سے ان کے جھنڈے، بینر اور ٹوپیاں وغیرہ چھین کر بھاگ رہے ہیں۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کو سورت میں اپنی کئی ریلیاں اور میٹنگیں منسوخ کرنی پڑیں۔
ان سب کے باوجود بی جے پی کی سورت میں کلین سویپ، راج کوٹ اور وڈودرا میں فتحیابی گلے سے نیچے نہیں اترتی۔ بی جے پی کی زمین تو بقیہ حصوں اور یہاں تک کہ احمد آباد تک میں کھسک رہی تھی۔ یہ رپورٹ لکھے جانے تک جو خبریں آئیں اس کے مطابق گجرات حکومت کے کم از کم 8 وزراء انتخاب ہار گئے ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے اس کا ووٹ شیئر تقریباً 11 فیصد نیچے گر گیا۔ راجیہ سبھا انتخابات کے دوران کانگریس کے جتنے بھی ممبران اسمبلی نے بغاوت کی تھی، تقریباً وہ سبھی انتخاب ہار گئے۔ اس کے باوجود سورت، راج کوٹ اور وڈودرا میں بی جے پی نے کلین سویپ کیا جو حیرت انگیز ہے۔
تو کیا، سورت کے ٹریڈرس نے آخری وقت میں بی جے پی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا؟ تو کیا سورت میں بی جے پی کے خلاف جو بھی غصہ نظر آ رہا تھا وہ سب ووٹنگ کی تاریخ آتے آتے ختم ہو گیا؟ تو کیا بی جے پی نے سورت اور دوسرے علاقے کے ٹریڈرس کو منا لیا تھا کہ مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے سے ان کا فائدہ ہے؟ یاد کریں کہ وزیر اعظم نے تو برسرعام ایک ریلی میں دھمکی دی تھی کہ مرکزی حکومت ایسی کسی بھی ریاستی حکومت کو ایک ڈھیلا نہیں دے گی جو ترقی کی مخالفت کرے گی۔
گویا کہ اسمرتی ایرانی نے ٹھیک ہی کہا کہ ’’جو جیتا وہی سکندر!‘‘ تو کیا واقعی بی جے پی کے بوتھ سطح کے کارکنان نے ہی اسے لگاتار چھٹی بار گجرات میں جیت دلائی۔ لیکن مجموعی طور پر سچائی اب یہ ہے کہ بی جے پی گجرات انتخابات میں فتحیاب ہو چکی ہے۔ ایسے میں انتخابی کمیشن کو کم از کم 25 فیصد پولنگ بوتھ کے وی وی پیٹ کا آڈٹ کرانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ وی وی پیٹ کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس سے پتہ چل جائے گا کہ ای وی ایم میں صحیح ووٹ صحیح امیدوار کے حق میں درج ہو رہے ہیں یا نہیں۔ لیکن ایسا کوئی آڈٹ ہی نہیں ہوا تو کسی کو کبھی کچھ نہیں پتہ چل سکے گا۔
انتخابی کمیشن نے گجرات میں بنے کل 50264 بوتھ میں سے صرف 182 بوتھوں کے آڈٹ کی بات کی ہے۔ تعداد کے مطابق یہ تو بہت ہی کم ہے۔ ایسے میں انتخابی کمیشن کو ماہرین کی مدد لینی چاہیے کہ کتنے بوتھوں کے کتنے وی وی پیٹ کا آڈٹ کرایا جائے، تبھی انتخابی کمیشن کی معتبریت اور غیر جانبداری پر دوبارہ بھروسہ قائم ہوگا۔
Published: 18 Dec 2017, 8:05 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Dec 2017, 8:05 PM IST
تصویر: پریس ریلیز