گجرات اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے بہت غور و خوض کے بعد سبھی سیٹوں پر مضبوط امیدوار اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ٹکٹ کی تقسیم کے وقت بی جے پی ’+75‘ والا فارمولہ سختی کے ساتھ اختیار کرنے کا عزم بھی کیا تھا، جس کے مطابق 75 سال سے زیادہ کی عمر والے لیڈروں کو اسمبلی انتخاب میں امیدوار نہیں بنایا جانا تھا۔ لیکن اس معاملے میں بی جے پی یوگیش پٹیل کے سامنے جھکنے کو مجبور ہو گئی ہے۔ ’نو ریپیٹ‘ کا فارمولہ بھی یوگیش پٹیل کے سامنے رخنہ انداز نہیں ہو سکا۔ بی جے پی کو مانجل پور اسمبلی سیٹ سے یوگیش پٹیل کو چوتھی بار ٹکٹ دینا پڑا جو کہ 76 سال کے ہیں اور اپنے حامیوں میں ’کاکا‘ کے نام سے شمہور ہیں۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ یوگیش پٹیل گجرات میں مقبول لیڈر ہیں جو زیادہ تام جھام سے دور رہتے ہیں۔ سیاست میں طویل پاری کھیلنے والے یوگیش پٹیل ایک سال پہلے تک وجئے روپانی کی مدت کار میں ریاستی وزیر تھے۔ 2022 کے انتخاب میں ان کی عمر اور سات بار رکن اسمبلی و وزیر رہنے کے بعد یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ پارٹی کسی نئے چہرے کو موقع دے گی۔ پارٹی نے ریاست کی 182 اسمبلی سیٹوں میں سے جب 181 سیٹوں کے لیے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا تو، لوگوں کو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مانجل پور سیٹ سے امیدوار کے نام کا اعلان کیوں نہیں ہوا۔ آخر میں بزرگ لیڈر یوگیش پٹیل کی ضد کے آگے بی جے پی کو جھکنا ہی پڑا اور 75 سال کی حد جو سبھی اراکین اسمبلی اور لیڈروں پر نافذ کی گئی تھی، وہ بے اثر ہو گئی۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ کبھی راؤپورہ سے کونسلر کا انتخاب نہیں جیت پانے والے یوگیش پٹیل سیاسی داؤ پیچ میں ماہر مانے جاتے ہیں۔ یوگیش پٹیل نے اپنی سیاست کی شروعات کانگریس سے کی تھی، لیکن مینکا گاندھی نے کانگریس پارٹی چھوڑی تو یوگیش پٹیل بھی الگ ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سنجے گاندھی کے نام پر بنے ’سنجے وِچار منچ‘ سے جڑ گئے تھے۔ بعد میں جب مینکا گاندھی جنتا دل میں گئیں تو یوگیش پٹیل بھی جنتا دل میں چلے گئے۔ پھر جب مینکا گاندھی بی جے پی کے قریب گئیں تو یوگیش پٹیل بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ یوگیش پٹیل پہلی مرتبہ 1990 میں راؤپورہ سے جنتا دل کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی بنے، اور پھر بعد میں وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر 1995، 1998، 2002، 2007 میں راؤپورہ سے لگاتار منتخب ہوئے۔ اس کے بعد حد بندی میں بنی مانجل پور سیٹ سے کھڑے ہوئے اور 2012 میں یہاں سے جیت حاصل کی۔ پارٹی نے یوگیش پٹیل کو 2017 میں بھی ٹکٹ دیا، اور انھیں پھر کامیابی ملی۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں وہ ایک بار پھر کامیابی کا پرچم لہرا سکتے ہیں یا نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز