جے پور/پشکر: صبح کے 5 بجے میں جے پور کے سندھی کیمپ بس اڈے سے سانگانیری جاتے وقت میں نے آٹو ڈرائیور سے ایک عام سا سوال کیا کہ چناؤ کس طرف جا رہے ہیں!
40 سالہ آٹو ڈرائیور شری موہن نے کہا ’’لوگ حکومت کو تبدیل کرنے کو بے تاب ہیں، مہارانی (وسندھرا راجے) کے خلاف زبردست لہر ہے۔ یہ حکومت جتنی جلدی چلی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ‘‘
ایک دلچسپ بات یہ کہ زیادہ تر علاقوں میں پوسٹر اور بینر نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جے پور سے اجمیر 135 کلو میٹر لمبے راستے پر بی جے پی کا جھنڈے اور بینر تو نظر آتے ہیں لیکن کانگریس کے جھنڈے اور بینر عموماً نظر نہیں آ رہے۔
اس پر میرے نزدیک بیٹھے سچن میگھوال (27) کہتے ہیں، ’’خواہ کانگریس آ پ کو اشتہارات میں نظر نہ آئے لیکن لوگوں کے دل و دماغ میں اس وقت بس ایک ہی ولولہ ہے کہ مہارانی کو کرسی سے اتار دینا ہے۔‘‘
راجستھان میں جگہ جگہ سڑکوں پر گائیں ٹہلتی ہوئی اور کھانا تلاش کرتیں ہوئی نظر آ رہی ہیں، یہ بات شرم ناک اس لئے ہے کیوںکہ بی جے پی گائے کو لے کر سیاست کرنے کے لئے جانی جاتی ہے اور راجستھان میں گائے کے نام پر موب لنچنگ کے کئی واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ 51 سالہ بِٹّو گائے کی اس بد حالی پر بی جے پی حکومت سے بد ظن ہیں، وہ کہتے ہیں، ’’وسندھرا راجے حکومت میں گائے کو لے کر کئے گئے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ گائے ماتا سڑکوں کے کنارے آوارہ گھومتی نظر آتی ہے اور گندگی میں پڑا چارہ اور پولی تھین کھاتی رہتی ہے۔ ‘‘
Published: undefined
بٹو گائے کے نام پر ریاست میں کی جا رہی بدعنوانی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں وہ کہتے ہیں، ’’یہاں گئو شالاؤں کے نام پر کافی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، مہارانی کی مدت کار شفاف اور ایماندار نہیں رہی۔ انہوں نے صرف اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا اور عوام کو بری طرح نظر انداز کر دیا۔ ‘‘
جے پور کے ایک مقامی اخبار میں راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کا انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے عورت ہونے کو اپنی کمزوری قرار دیا ہے۔ وسندھرا کا کہنا ہے کہ خاتون ہونے کے ناطے وہ شام 8 بجے کے بعد کسی سے نہیں مل پاتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتیں کہ رات 10 بجے کے بعد بھی لوگ ان سے ملنے آئیں، آخر ان کی فیملی ہے!۔
راجستھان کی اپنی ثقافت اور روایات ہیں۔ یہاں کی بسوں میں خواتین پوری طرح گھونگھٹ میں چھپی ہوئی نظر آتی ہیں، آپ کسی عورت کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے، بات نہیں کر سکتے۔ اگر ان کا فوٹو بھی کھینچنا چاہیں تو ساتھ میں بیٹھے مرد منع کر دیتے ہیں۔ مردوں کا وسندھرا راجے کہ ’میں عورت ہوں‘ کے بیان سےاتفاق رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’مہارانی وسندھرا عورت ہیں یہ بات تو سچ ہے، وہ یہاں کی بہو ہیں اور بہوؤں کا گھونگھٹ میں رہنا ہی بہتر ہے۔ ‘‘
Published: undefined
میں جس بس پر سوار ہوں اس میں تین لڑکیاں بھی موجود ہیں جو کسی روایت یا بندشوں کو نہیں مانتیں۔ تینوں لڑکیاں پریتی سنگھ، شیفالی گپتا اور پراپتی مشرا دہلی سے ہیں۔ تینوں چتوڑ کی سیر کے لئے جا رہی ہیں۔ پریتی سنگھ (25) کا کہنا ہے، ’’جس ریاست کی وزیر اعلیٰ کو گھونگھٹ میں رہنا اچھا لگتا ہو وہاں کی خواتین مرکزی دھارے میں آ پائیں گی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ شیفالی نے کہا، ’’راجستھان کے کوٹا، جے پور اور جیسلمیر میں بیرونی لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، کافی ماڈرن اور کھلے ذہن کی لڑکیاں بھی وہاں پہنچتی ہیں۔ کیا راجستھان کی خواتین ان دنیا بھر سے آئی لڑکیوں کو جب دیکھتی ہوں گی تو ان کا دل اندر سے کسمساتا نہیں ہوگا! ‘‘
شیفالی کا سوال میر ے ذہن میں گونجتا رہا اور میں مقامی خواتین سے یہی سوال دہرانے کی خواہش ہونے کے باوجود میں ان سے یہ سوال کرنے کی ہمت نہیں جٹا پایا۔ میری بس میں سریش یادو (54) بھی اپنی بیٹی کے ساتھ موجود ہیں جو اپنی بیٹی کو کالج پہنچانے جا رہے ہیں۔ سریش نے کہا، ’’جس ریاست میں خواتین قیادت ہو اور وہاں کی خاتون وزیر اعلی کمزور عورت ہونے کا رونا روئے یہ زیب نہیں دیتا۔ یہ ایک منفی نظریہ ہے اور ایسی حکومت کا بدل دینا ہی بہتر ہے۔ ‘‘
Published: undefined
دو دو اسمبلی حلقہ انتخاب میں ٹریول ایجنسی چلانے والے راجیش بھاٹی (44) کے مطابق مودی اور وسندھرا کے راج نے راجستھان کی حالت خراب کر دی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سیاحوں نے ادھر کا رُخ کرنا بند کر دیا ہے۔ حکومت نے صرف اپنے لوگوں کو مالامال کیا ہے اور یہاں بدعنوانی عروج پر ہے۔ ‘‘
راجستھان میں کانکنی بھی ایک ایشو ہے۔ وسندھرا راجے حکومت پر الزام ہے کہ ان کی حکومت اپنے لوگوں سے غیر قانونی کانکنی کرا کر انہیں دولت اکٹھا کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ سڑکوں پر لوگ گدھوں کے ذریعے بجری اور ریت ڈھوتے ہوئے نظر آ جاتے ہیں۔ ایک نوجوان راجیش نے ایک ویڈیو دکھائی جس میں وسندھرا راجے اپنے کارکنان سے یہ کہتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ لوگوں کو مذہبی معاملات میں اتنا الجھا دو کہ انہیں بجری کانکنی پر سوال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
Published: undefined
اجمیر ویسٹ کے بھاٹی محلہ کی 87 سالہ رام رتی گھونگھٹ میں رہتی ہیں اور انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ رام رتی کہتی ہیں، ’’مہارانی کی حکومت بدلی جانی چاہیے۔ مہارا پوتا سولہویں کلاس پڑھ لیا لیکن نوکری نہیں ملی۔‘‘ ان کے نزدیک کھڑے نریش کی کچھ روز قبل شادی ہوئی ہے۔ بے روزگاری نے انہیں چڑچڑا بنا دیا ہے، وہ بات بات پر بھڑک جاتے ہیں۔ نریش نے کہا، ’’میڈیا نے سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بے روزگاری اور لوگوں کی مشکلات ٹی وی پر نہیں دکھائی جاتیں، پورے دن مودی کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ ہندو مسلمان اور مندر مسجد کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ عام لوگ جی رہے ہیں یا مر رہے ہیں۔ ‘‘
اجمیر میں سڑک کنارے میڈیکل کلینک کے باہر کچھ خواتین اپنے بچوں کو گود میں لے کر بیٹھی ہیں۔ ایک نظر میں دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی غریب بکھارن ہیں، لیکن نزدیک جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیمار بچوں کا علاج کرانے آئی ہیں۔ یہاں خواتین کا زمین پر بیٹھ جانا ایک عام سی بات ہے۔ انہیں اپنے گھروں میں مردوں کے برابر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ تیز آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور غیر مردوں سے تو بالکل بات نہیں کر سکتیں۔ لہذا میرے کسی بھی سوال کا ان خواتین نے جواب نہیں دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined