آس محمد کی گراؤنڈ رپورٹ
اجمیر کے بھیلواڑا روڈ پر واقع کالج کے نزدیک رہنے والی رادھا 50 سال کی ہو چکی ہیں۔ وہ جس سماج سے آتی ہیں اسے ’کنجر‘ کہا جاتا ہے۔ رادھا جھاڑو بنانے کا کام کرتی ہے اور ترپال سے بنی ہوئی جھونپڑی میں رہتی ہے۔ چھونپڑی میں ہڈی گلا دینے والی سردی سے بچاؤ کے لئے اسے جھاڑو جلانی پڑتی ہے۔ رادھا دس روپے میں ایک جھاڑی بیچتی ہے اور دن بھر میں بمشکل 10 جھاڑو ہی بیچ پاتی ہے۔
راجستھان میں چناؤ ہو رہے ہیں، رادھا نے یہ سنا ہے، اس وقت مہارانی (وسندھارا راجے سندھیا) کا راج ہے اتنا انہیں معلوم ہے، کانگریس اور بی جے پی دونون کے نام بھی انہیں نے سنے ہیں۔ وہ ووٹ تو دیتی ہیں لیکن ووٹ کے ذریعہ ان کی قسمت بدل سکتی ہے ان کی یہ امید ٹوٹ چکی ہے۔ پچھلی بار انہوں نے ضرور امید لگائی تھی کہ شاید ان کی زندگی بہتر ہوگی، بچے پڑھ لیں گے لیکن وہ اس وقت بھی جھاڑو بناکر گزارا کرتی تھیں اب بھی، یہاں تک کہ ان کے بچے بھی سڑک کے کنارے جھاڑو بنا رہے ہیں۔ رادھا نے کہا، ’’بابو جی مہارا کچھ نا ہورا، تم اپنا ٹیم کیوں خراب کر رے۔ کوئی مہارانی ہماری قسمت نا بدل سکتی۔‘‘
راجستھان میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، 7 دسمبر کو پولنگ ہے اور راجستھان کی ہوا یہ کہتی ہے کہ شاید وزیر اعلی وسندھرا راجے سندھ کی کرسی اب شاید چلی جائے گی۔ سندھیا رہیں یا چلی جائیں لیکن رادھا اور نتھو خان جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے رہنے یا چلے جانے سے ان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
Published: 01 Dec 2018, 8:09 PM IST
نتھو خان (57) تانگا چلاتے ہیں اور درگاہ اجمیر شیرف سے بس اڈے تک ان کا ٹک ٹک (تانگا) انسانوں کو ڈھوتا ہے۔ نتھو کہتے ہیں، ’’بیٹا آج تم نے پوچھ لیا پریشانی کیا ہے! ورنہ یہاں کسے ہماری پروا ہے۔ ہماری زندگی میں حکومتوں کے بدلنے سے کوئی بدلاؤ نہیں آتا۔ 40 سال سے تانگا چلا رہا ہوں، خود کھانے کے لئے خود ہی کمانا پڑتا ہے۔‘‘
نتھو نے مزید کہا، ’’حکومت مہاراجہ کی ہو یا مہارانی کی۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ میری گھروالی بیمار ہوئی تھی تو سرکاری اسپتال نے علاج کرنے سے منع کر دیا۔ مجبور پرائیویٹ اسپتال میں لے جانا پڑا اور علاج کے لئے قرض بھی لینا پڑا۔ اب وہی قرض اتارے نہیں اتر رہا ہے، اولاد ہے نہیں۔‘‘
Published: 01 Dec 2018, 8:09 PM IST
خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ یعنی اجمیر شریف پر آج کر وی آئی پی لوگوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہو گیا ہے، مین گیٹ پر تقریباً ایک گھنٹے میں ایک بری کار والا شخص پہنچ رہا ہے۔ خادم درگاہ نعمان چشتی کہتے ہیں کہ ’’درگاہ کسی کے حق میں کوئی اپیل جاری نہیں کرتی، ہم سیاسی اثر سے دور رہتے ہیں، لوگوں کو اپنی مرضی سے ووٹ دینا چاہئے۔‘‘
اجمیر شہر کہنے کو تو اسمارٹ سٹی میں شامل ہے لیکن یہاں پر گلیاں گندگی سے بھری ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ پائپ لائن بچھانے کے لئے کئی محلوں میں سڑک کھودی گئی تھی جن کی مہینوں سے مرمت نہیں کی گئی ہے۔ اجمیر کے کوری محلہ میں پینے کا پانی نہیں آتا، گلی کے باہر گندگی کا ڈھیر پڑا ہوا ہے جس کی جس کی گندگی اور پالی تھین کو گایوں کو کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ممتا (55) کہتی ہیں، ’’2014 میں یہاں کے لوگوں نے بڑی امیدوں کے ساتھ مودی کو منتخب کیا تھا لیکن انہوں نے کسی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ الٹے گیس کے دام بڑھ گئے۔ اب ایک گیس سلینڈر ایک ہزار روپے کا ہو گیا ہے۔
اجمیر ویسٹ سے واسودیو دیونانی چناؤ لڑ رہے ہیں۔ یہاں کے مسلم اکثریتی علاقہ اوپر کوٹ میں انہیں لے کر سخت ناراضگی ہے۔ شکیل عباسی (43) یہاں کے عباسی طبقہ کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’دیونانی وسندھرا راجے حکومت میں وزیر تھے اور اجمیر سے رکن اسمبلی بھی لیکن انہوں نے دو طبقات کو باٹنے کی بے انتہا کوشش کی۔ انہوں نے درگاہ شریف کے باہر بھگوا جھنڈے تک لگوا دئے تھے۔ لیکن ہم مل جل کر رہتے ہیں اور دیونانی کے منصوبوں کو یہاں کے لوگوں نے ناکام کر دیا۔‘‘
Published: 01 Dec 2018, 8:09 PM IST
اجمیر ویسٹ کے حلقہ میں درگاہ اجمیر شریف موجود ہے۔ مقامی رہائشی محمد خالد حسن ایک اور بات بتاتے ہیں۔ انہو ں نے کہا، ’’محلہ سپیا تارا میں ایک مسجد ہے۔ وہاں مسلم طبقہ کے لوگ کم ہیں۔ مقامی بازار والوں نے جھوٹی شکایت کی کہ مسجد میں کچھ لوگ نشہ کرتے ہیں۔ اب مسجد میں کوئی نشہ کرتا ہوگا بھلا! خیر ہم لوگ تھانے گئے اور اپنا موقف رکھا۔ رکن اسمبلی دیونانی نے بھی اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ جہاں مسلمان نہیں رہتے وہاں مسجد کا کیا مطلب!‘‘
محمد خالد نے کہا، ’’ہم نے کہا کہ اندر کوٹ میں قدیمی جھریشور مندر ہے وہاں تو صرف مسلمان رہتے ہیں اور وہ مندر کی ہر تقریب میں تعاون بھی کرے ہیں! اس پر منتری جی مجھے گھورنے لگے۔‘‘
اجمیر ضلع کی اسمبلی پشکر میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے منگل کے روز ایک جلسہ عام سے خطاب کیا تھا۔ پشکر اجمیر سے 20 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں انہوں نے گورکھ دھندا لفظ بند کرنے کی بات کہی ساتھ ہی ہنومان کو دلت بتا دیا۔ نام شائع نہ کرنے کی شرط پر ایک آٹو رکشہ یونین کے رہنما نے بتایا کہ وہاں 20 ہزار لوگوں کا انتظام کیا گیا تھا لیکن پہنچے محض تین ہزار لوگ۔
کانگریس کارکن اشوک بھڑانا کہتے ہیں، ’’مہنگائی اور بدعنوانی بڑھ گئی ہیں اور وکاس پیدا نہیں ہو پایا ہے، اس لئے بی جے پی والے مذہبی نفرت پھیلا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب ووٹر سب سمجھتا ہے اور بی جے پی کو دھول چٹانے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
Published: 01 Dec 2018, 8:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Dec 2018, 8:09 PM IST