3000 کی آبادی والے کبھاپور گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 800 ہے۔ گرام پردھان پال سماج سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن گاؤں کو ’تیاگیوں‘ کے کھباپور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گاؤں میں بچوں کی پٹائی کے بعد مشہور ہوئی ٹیچر ترپتا تیاگی کے علاوہ بچے کے والد بھی تیاگی سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا نام ارشاد تیاگی ہے۔ دونوں سماج کی گاؤں میں برابر کی آبادی ہے۔ ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہیں۔ مذہب الگ الگ ضرور ہے، لیکن ذات ایک ہی ہونے کے سبب آپسی بھائی چارہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارشاد کے گھر کھڑے یوسف تیاگی کہتے ہیں کہ ترپتا تیاگی ہماری برادری کی بہن ہے، وہ بچوں کی علامتی پٹائی کر سکتی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دوسرے بچوں سے پٹوانا ہی نہیں چاہیے تھا، اور پھر ’محمڈن‘ لفظ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، اس نے دل کو گہری چوٹ پہنچائی ہے۔
Published: undefined
یوسف تیاگی کا کہنا ہے کہ گاؤں کا معاملہ دیکھتے ہوئے کل مقامی لوگوں نے متاثرہ کے والد ارشاد کو سمجھا کر سمجھوتہ بھی کرا دیا تھا، لیکن کچھ باتوں کو سننے کے بعد ہم کارروائی چاہتے ہیں۔ یہ بات اب ایک اسکول اور ایک ٹیچر کی نہیں رہ گئی ہے، بلکہ حوصلہ شکنی کی ہے۔ اگر یہاں سے ہم خاموش بیٹھ جاتے ہیں تو ہمارے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جائیں گے۔
Published: undefined
یہ الگ بات ہے کہ پولیس نے اس معاملے میں این سی آر درج کی ہے۔ اس میں پولیس گرفتاری نہیں کرتی ہے۔ ارشاد تیاگی کہتے ہیں کہ پہلے تو ایک بار سمجھوتہ ہی کرا دیا تھا، یہ تو اس کے بعد پولیس نے خود ہی مقدمہ درج کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی دباؤ کے سبب یہ کیا گیا ہے۔ اب انتظامیہ جو بھی کارروائی کرے گی، یہ ان پر منحصر کرتا ہے۔ میں تو بس یہی کہہ رہا ہوں کہ اس سب کے درمیان میرے بچے کے ذہن پر جو اثر پڑ رہا ہے، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اس لیے پڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ قابل آدمی بنے اور سماج و ملک کا نام روشن کرے۔ لیکن جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے وہ حوصلہ کمزور کرنے والا ہے۔ میں اپنے بچوں کی ہمت ٹوٹنے نہیں دوں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ وہ یہ سب بھول جائے۔
Published: undefined
ارشاد تیاگی کسان ہیں اور آج صبح ہی ان سے آر ایل ڈی چیف جینت چودھری، کاگنریس کے راجیہ سبھا رکن عمران پرتاپ گڑھی اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے بھی فون پر بات کی ہے۔ ارشاد بتاتے ہیں کہ تمام لوگ بات کر رہے ہیں اور ملنے بھی آ رہے ہیں۔ لیکن میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے یہیں رہنا ہے اور بھائی چارہ قائم رہنا چاہیے۔ میں ان سبھی کا شکریہ ادا کرتا ہوں، سبھی نے مجھے یہ احساس کرایا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ ایک رکن اسمبلی چندن چوہان نے میرے فون پر جینت چودھری سے بات کرائی جس میں انھوں نے میرے بچوں کو دوسرے اسکول میں داخلہ کرانے کی بھی بات کہی۔ میرا بچہ ابھی صرف 7 سال کا ہے، اس کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ ٹیچر ترپتا تیاگی کو سخت سزا ملے بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ کسی بھی دوسرے بچوں کے ساتھ اس طرح کا کوئی تفریق نہ ہو۔
Published: undefined
کھباپور، منصور پور تھانہ حلقہ کا ایک گاؤں ہے۔ اس میں آپ کو شاہ پور روڈ پر تقریباً 5 کلومیٹر چلنا پڑتا ہے۔ گاؤں میں بیشتر کسان ہیں۔ جس اسکول ’نیہا پبلک اسکول‘ کی ٹیچر کے ذریعہ پٹائی کی بحث ہو رہی ہے، گاؤں میں اس نام کا اسکول نہیں ہے۔ دبی زبان میں ایک نوجوان بتاتا ہے کہ پاس کے ایک گاؤں گھاسی پورہ میں اس نام کا اسکول ہے، وہ یہاں سے دو کلومیٹر دور ہے۔ یہاں جو بچے پڑھ رہے ہیں وہ وہیں ایڈجسٹ کیے گئے ہیں۔ مظفر نگر کے بی ایس اے معاملے کے طویل پکڑنے کے بعد اسی گاؤں میں جانچ کرنے پہنچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس پوائنٹ کے بارے میں اطلاع ملی ہے اور اس کی بھی جانچ کریں گے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی گاؤں میں کسی طرح کا کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہے۔ گاؤں کے چندرپال کہتے ہیں کہ میڈم نے غلط طریقہ اختیار کیا، انھیں بچوں کی پٹائی دوسرے بچوں سے نہیں کرانی چاہیے۔ تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو الفاظ کہے وہ بھی غلط تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی نیت ٹھیک ہو، لیکن جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بہت زیادہ غلط تھا۔
Published: undefined
بچوں کی پٹائی کا معاملہ اب سیاسی طول پکڑ رہا ہے۔ معاملہ کا رخ پلٹنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بھیم آرمی اور سماجوادی پارٹی کے بھی کچھ کارکنان گاؤں میں بچوں کے گھر پہنچے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے مقامی لیڈر ساجد حسن نے تھانہ میں درج ہوئی رپورٹ پر اعتراض ظاہر کیا، وہ بھی گاو۷ں پہنچے تھے۔ ساجد نے کہا کہ اتنے سنگین جرائم والے معاملے میں پولیس نے محض این سی آر درج کی ہے۔ کم از کم ایف آئی آر تو لکھنی چاہیے تھی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کارروائی کی نمائش کی جا رہی ہو۔ اگر اس طرح کے واقعہ میں متاثرہ اور ملزم کو مذہب الگ ہوتے تو اب تک این ایس اے اور بلڈوزر دونوں کا استعمال ہو جاتا۔ ویڈیو میں صاف نفرت دکھائی دے رہی ہے، لیکن رپورٹ میں اس کی دفعات نہیں لکھی گئی ہے۔ مقدمہ بے حد کمزور دفعات میں درج ہوا ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف ملزم ٹیچر ترپتا تیاگی کی گرفتاری کے مطالبہ کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاملے نے اب سیاسی شکل اختیار کر لی ہے۔ مظفر نگر بی جے پی کے ضلع صدر رہ چکے دیوورَت تیاگی ملزم ٹیچر کے حق میں کھڑے ہو چکے ہیں۔ دیوورَت تیاگی نے بتایا کہ ٹیچر کی نیت خراب نہیں تھی۔ وہ بچوں کو پہاڑا یاد کروا رہی تھیں۔ معذور ہونے کے سبب اس نے بچوں کو ہی پیٹنے کے لیے کہہ دیا۔ انھوں نے کسی مذہب پر کوئی تبصرہ بھی نہیں کیا، ٹیچر کی ویڈیو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ ویڈیو بنانے والے اور وائرل کرنے والوں نے سازشاً ایسا کیا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ملزم ٹیچر بھی یہی بات کہہ رہی ہے۔ ترپتا تیاگی کا کہنا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن ان کی نیت صاف تھی اور وہ بچوں کے بھلے کے لیے ہی سوچ رہی تھی۔
Published: undefined
مظفر نگر کے ضلع مجسٹریٹ اروند ملپا بنگاری نے اس معاملے میں سخت کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ پولیس انتظامیہ، محکمہ تعلیم اور محکمہ اطفال فلاح تینوں کو ان کے کردار میں غیر جانبدارانہ کارروائی کے لیے کہا گیا ہے۔ قصوروار کے خلاف کارروائی یقینی طور پر کی جائے گی۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس گاؤں کھباپور کی دوری کھتولی سے محض 10 کلومیٹر ہے۔ اس علاقے میں چندریان-3 کی لینڈنگ کے بعد سے جشن کا ماحول ہے۔ اِسرو کی ٹیم میں شامل رہے اریب احمد یہی کے رہنے والے ہیں۔ کھتولی کے اریب احمد کی دھوم گاؤں گاؤں تک پھیلی ہے۔ اس گاؤں میں بھی اریب احمد کی ویڈیو دیکھی گئی تھی۔ گاؤں کا ایک نوجوان ثاقب تیاگی تازہ پٹائی معاملہ کو لے کر کہتا ہے کہ ایسے کیسے بنیں گے مستقبل کے اریب! ان کا حوصلہ تو بچپن میں ہی ٹوٹ جائے گا۔ ثاقب کہتے ہیں کہ انھیں بہت برا لگ رہا ہے۔ اسکولوں میں تفریق کے کئی واقعات ہو رہے ہیں۔ یہ ایک معاملہ سامنے آ گیا، لیکن معاملے تو اور بھی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز