’’سرسید اپنے مشن کی اس طرح تشریح کر کے گئے تھے کہ دوبارہ اس کی تشریح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔افسوس یہ ہے کہ ان کی اس تشریح پر ہم نے عمل نہیں کیا اور یہ ہماری بڑی غلطی ہے ۔ اس مشن کی ہمیں تعریف نو کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم سر سید کے مشن کی اصلیت سے واقفیت حاصل کریں اور اس کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ اسلام کس چیز کو تعلیم کہتا ہے، کلامِ پاک کس چیز کو تعلیم کہتا ہے، رسول پاک نے کس چیز کو تعلیم کہا تھا اور سر سید نے کس چیز کو تعلیم کہا اس میں فرق نہیں ہے۔ تعلیم کے اس مشن کو، اس تصور کو ہم لوگ دریافت کریں، یہی سرسید کو ہمارا خراج عقیدت ہے، یہی وقت کا تقاضا ہے، یہی ملت کے لیے ہم لوگوں کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔‘‘ ان خیالات کا اظہار پروفیسر طاہر محمود نے سر سید احمد خان کے 200ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقد ایک پروقار تقریب میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ ’سر سید مشن: ری ڈیفائننگ علی گڑھ موومنٹ‘ عنوان کے تحت دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (آئی آئی سی سی) میں منعقد اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’’آج ہندوستان میں 300 سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں۔ ہم لوگ کیوں نہیں کوشش کرتے کہ ملک کی ہر یونیورسٹی میں اپنے بچوں کو بھیجیں۔ کیوں نہیں کوشش کرتے کہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں ملت کے جن بچوں کا داخلہ ہو جائے انھیں اڈاپٹ کر کے ان کو آگے بڑھانے اور ہر طرح سے مدد کرنے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لیں، ایسا کوئی ادارہ ہم لوگ قائم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جس کے تحت اس طرح کے کام انجام دیے جا سکیں؟ 1972 میں ہم لوگوں نے ’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘ تو قائم کر لیا لیکن آل انڈیا مسلم ایجوکیشن بورڈ آج تک قائم کیوں نہیں ہوا؟ کسی کو خیال نہیں آیا کہ اس طرح کا کوئی بورڈ قائم کر لیا جائے۔ جب ایک بار اس کی کوشش کلکتہ میں ایک بہت بڑے اجلاس میں ہوئی اور صدارت کے لیے سابق چیف جسٹس عزیز احمدی صاحب کا نام بھی تجویز ہو گیا تو دینی طبقات کی جانب سے اس قدر مخالفت ہوئی کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘ پروفیسر طاہر محمود نے تعلیمی شعبہ میں مسلمانوں کی پسماندگی کے لیے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’بہت زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سرسید کے زمانے کے بعد سے کوئی ترقی نہیں ہوئی یا کوئی فرق پڑا ہی نہیں ہے، بہت سے انقلاب آئے ہیں اور اس انقلاب میں ہم بھی شامل ہیں۔ ہمارے یہاں تعلیم کی سمت میں قابل قدر پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن اس کی رفتار کم ہے۔‘‘
Published: 18 Oct 2017, 4:42 PM IST
اس موقع پر معروف سیاستداں عارف محمد خان نے سر سید کی مخالفت میں آواز اٹھانے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں اس طرح کے لوگ موجود رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تمام انبیائے کرام اور صلحاء کی یہ سنت رہی ہے کہ انھیں ان کی زندگی میں لمبے وقت تک سخت تنقید، مخالفت اور گالیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان سے دشمنی کرنے میں لوگ کسی بھی حد تک گئے۔ اسی طرح کی مخالفت کا سامنا سر سید کو بھی کرنا پڑا۔‘‘ سر سید مشن کے تعلق سے اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ مشن کامیاب ہوا، لیکن 100 فیصد کامیاب ہوا کہ نہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مشن صرف آرٹس، سائنس، گریجویٹس، ڈاکٹرس پیدا کرنا تھا تو مکمل طور پر کامیاب ہوا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سر سید ڈگری کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ انہوں نے ہمیشہ سوچنے والا ذہن پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جس وقت سرسید نے اپنی تحریک شروع کی اس وقت مسلمانوں میں یہ بات عقیدہ بنی ہوئی تھی کہ اگر ہم نے جدید سائنس، جدید تعلیم حاصل کی تو مذہب سے ہم محروم ہو جائیں گے، اس واہمے کو توڑنا سر سید کا اہم کارنامہ ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ دہلی یونیورسٹی، جے این یو، کلکتہ و بمبئی و مدراس یونیورسٹی وغیرہ میں آج مسلمان طلباء اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جا رہے ہیں تو یہ سرسید کی تحریک کا ہی نتیجہ ہے۔‘‘
Published: 18 Oct 2017, 4:42 PM IST
عارف محمد خان نے سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سر سید احمد خان کو کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح انہوں نے جدوجہد کی اس کا پتہ ان کے اس قول سے چلتا ہے کہ ’’ہم صرف تعلیم اور سماجی اصلاح کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہماری مصیبت یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرو تو ہمیں فوراً جواب ملتا ہے کہ مذہباً سخت گناہ ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ اس سے بچو تو جواب ملتا ہے کہ یہ تو عین ثواب ہے۔ گویا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ ہم مذہب کے تعلق سے بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جسے تم ثواب سمجھ رہے ہو اس کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے اور جس کو تم گناہ سمجھ رہے ہو، اس کے بارے میں جس نے بھی تمہیں بتایا اس نے اسلام کی غلط ترجمانی کی۔‘‘
عارف محمد خان نے اس موقع پر افسوس ظاہر کیا کہ سر سید کی سوچ اور ان کے مشن کو ابھی تک صحیح طریقے سے عام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ انہوں نے سر سید کے خطوط، مضامین، مقالات وغیرہ مرتب انداز میں شائع نہ کیے جانے پر اظہار غم کیا اور اس کے لیے علیگ برادری کو آگے بڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ’’ہم حکومت اور انتظامیہ پر مدد نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن تعلیمی پسماندگی کے ذمہ دار خود ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ45-55 ہزار کروڑ زکوٰۃ کا پیسہ مدرسوں کو حاصل ہوتا ہے اور یہ پیسہ وہ دیتے ہیں جو اپنے بچوں کو مدرسوں میں نہیں پڑھاتے، کسی پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتے ہیں۔ کیا ان پیسوں سے غریب بچوں کو صرف قرآنی تعلیم دی جانی چاہیے؟‘‘
عارف محمد خان نے امت مسلمہ سے اپیل کی کہ وہ تقلید کی زنجیروں سے آزاد ہوں کیونکہ جب تک اس سے آزادی حاصل نہیں کریں گے سر سید کی تحریک پوری طرح کامیاب نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں انہوں نے سر سید کا یہ قول بھی پیش کیا کہ ’’ہم تقلید کو تسلیم نہیں کرتے، مذہب کو تقلیداً قبول کرنے سے تحقیقاً اس پر ایمان لانا ضروری سمجھتے ہیں اور اسی طرح اور بہت سے مسائل اعتقادی و تمدنی ہیں۔ جس قدر اسلام کو نقصان تقلید نے پہنچایا ہے اتنا کسی چیز نے نہیں۔‘‘
Published: 18 Oct 2017, 4:42 PM IST
حکومت ہند کے سابق سکریٹری سراج حسین نے اس موقع پر پروفیسر طاہر محمود کی اس بات کی تائید کی کہ تعلیمی شعبہ میں کوئی کام نہیں ہوا ہے ایسا کہنا غلط ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بی ایس عبدالرحمن یونیورسٹی، محمد علی جوہر یونیورسٹی اور مولانا آزاد یونیورسٹی (جودھپور) وغیرہ ایسی یونیورسٹیاں ہیں جو بغیر سرکاری امداد کے منظر وجود پر آئیں۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ ’’اقلیتوں میں تعلیم کے حق کو محدود کرنے کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن سپریم کورٹ نے ایسا نہیں ہونے دیا جو ہمارے لیے خوشی کی بات ہے۔ ہمیں تعلیم کا جو حق دیا گیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘ یو جی سی اور سی آئی سی کے سابق رکن پروفیسر ایم ایم انصاری نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’سر سید کا یہ پیغام کہ تعلیم نہایت ضروری ہے، مسلمانوں تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی سر سید کے مشن کو ہم سمجھ چکے ہیں۔ اب صرف اس مشن پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ جنھوں نے تعلیم کو اختیار کیا وہ خوشحال ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو۔‘‘ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر انہوں نے کہا کہ ’’متعدد فرقہ وارانہ فساد سے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ فساد میں وہ اِدھر اُدھر ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس سے ایجوکیشن پر بھی اثر پڑتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’حکومت خصوصاً موجودہ حکومت مسلمانوں کو الگ تھلگ ہی رکھنا چاہتی ہے۔ اسے نہ ہی مسلمانوں کا ووٹ چاہیے اور نہ ہی وہ مسلمانوں کو ٹکٹ دینا چاہتے ہیں۔ حکومت مسلمانوں کے تئیں خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتی اس لیے ہمیں خود حق تعلیم اور حق اطلاعات جیسے حقوق کا استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘ پروفیسر انصاری نے اپنی تقریر کے دوران علیگ برادری سے بھی کچھ ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ ’’یو جی سی میں جب میں نے کہا کہ مالویہ کے نام پر ملک کی یونیورسٹی میں چیئر ہو سکتا ہے تو سر سید کے نام پر کیوں نہیں۔ کافی غور و فکر کے بعد یو جی سی نے کہا کہ علی گڑھ میں سر سید چیئر ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس ہے کہ علیگ ابھی تک ایسا نہیں کر سکے۔‘‘
Published: 18 Oct 2017, 4:42 PM IST
سینکڑوں سامعین کی گواہ بنی اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف کالم نویس رعنا صفوی نے سر سید کی سائنسی سوچ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’1857 کی جنگ کے بعد انگریزوں کو احساس ہو گیا تھا کہ مسلمان ہی ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں اس لیے ہندوؤں کے خلاف انھیں بھڑکانے کی کوشش کرنے لگے۔ انہوں نے مسلمانوں کو معاشی و تعلیمی دونوں شعبہ میں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن سرسید جانتے تھے کہ تعلیم کے بغیر مسلمانوں کی فلاح ممکن نہیں اور انہوں نے اس کو عام کرنے میں اپنی پوری طاقت لگا دی۔‘‘ رعنا صفوی نے مزید کہا کہ ’’آج صرف اچھے اسکول اور یونیورسٹیاں کھولنے سے حالات نہیں بدل سکتے بلکہ ہمیں اچھے معلم کی بھی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں مدرسوں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں میں قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کو فروغ دیں۔‘‘ اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کے صدر سلامت اللہ نے بھی اچھے معلم کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’آج جو استاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہیں وہ تعلیم یافتہ ضرور ہیں لیکن اپنا علم بچوں میں منتقل نہیں کر رہے ہیں۔ استاد کو یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ وہ کس طرح ریڈر، لکچرر، پروفیسر بن سکتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ بچے ان عہدوں تک کس طرح پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پوری دنیا آگے بڑھ رہی ہے لیکن آخر ایسا کون سا بریک لگ گیا ہے کہ ہمارے بچے آئی اے ایس، آئی پی ایس، اسپورٹس یا پھر سرکاری ملازمت میں پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کمیونٹی کے زیر اہتمام منعقد اس تقریب میں مشہور و معروف صحافی قربان علی نے بھی خطاب کیا اور سر سید کو مصلح قوم اور دور اندیش شخصیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایک وقت جب مسلمانوں کو سیاست میں قدم رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا تو سر سید نے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ ابھی مسلمانوں کو سیاست میں قدم رکھنے کا وقت نہیں آیا ہے، انھیں فی الحال تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے۔‘‘ قربان علی نے مزید کہا کہ ’’مہاتما گاندھی نے سر سید کو 'Prophet of Education' کہا تھا لیکن ہم ابھی تک سر سید کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے ہیں۔ سر سید کے نام پر ابھی تک ایک یونیورسٹی بنی ہے جب کہ 100 سال میں کم از کم 10 یونیورسٹی بن جانا چاہیے تھیں۔‘‘
تقریب کے انعقاد میں اہم کردار ادا کرنے والے ایڈوکیٹ محمد اسلم خان نے اس موقع پر علیگ برادری سے کہا کہ 3 سال بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے 100 سال مکمل ہو جائیں گے اس لیے وہ عہد کریں کہ اس درمیان ایک نئی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے فوزیہ رحمان نے بھی سر سید کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ ویسے تو تالوں کا شہر کہا جاتا ہے لیکن سر سید نے عقل پر پڑے تالوں کو کھولنے کا کام کیا ہے۔
منگل کی شام منعقد اس پروقار تقریب میں اے ایم یو کا ترانہ ’یہ میرا چمن، یہ میرا چمن‘ بھی پیش کیا گیا اور اختتام قومی ترانہ ’جن گن من‘ کے ساتھ ہوا۔ اس موقع پر علیگ برادری سے تعلق رکھنے والےمعروف سماجی کارکنان، وکلاءاور ڈاکٹرس کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ دہلی و اطراف کی معزز شخصیات بھی موجود تھیں۔
Published: 18 Oct 2017, 4:42 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Oct 2017, 4:42 PM IST
تصویر: پریس ریلیز