کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اڈانی معاملے پر حکومت کو گھیرتے ہوئے کہا کہ ملک جاننا چاہتا ہے کہ حکومت اور اڈانی کے درمیان کیا تعلقات ہیں؟ صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ملک اس جانب دیکھ رہا ہے کہ کیا اس شخص (راہل گاندھی) کو ایوان میں حکومت کے ان چار وزراء کو جواب دینے کا موقع دیا جائے گا جنہوں نے ان سے ایوان میں سوال کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب چار وزراء نے میرے متعلق کچھ کہا ہے تو مجھے بھی جواب دینے کا موقع ملنا چاہئے۔‘‘ راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ آج صبح وہ پارلیمنٹ گئے تھے جہاں انہوں نے لوک سبھا اسپیکر سے ملاقات کی اور ان کو امید ہے کہ کل ان کو بولنے کا موقع مل جائے گا۔
Published: undefined
راہل گاندھی نے بتایا کہ اصل کہانی اس وقت شروع ہوئی تھی جب انہوں نے حکومت سے ایوان میں سوال کیا تھا کہ گوتم اڈانی کا حکومت سے کیا تعلق ہے؟ گوتم اڈانی کو کس طرح حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ اڈانی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے آسٹریلیا اور سری لنکا کا بھی ذکر کیا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے کچھ دن پہلے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے مودی اور اڈانی پر سوال اٹھائے تھے۔ اس بارے میں انھوں نے کہا کہ تقریر کا وہ حصہ حذف کر دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’تقریر میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو میں نے پبلک ریکارڈ سے نہ لیا ہو۔ حکومت اور وزیر اعظم اڈانی معاملے سے خوفزدہ ہیں، اس لیے انہوں نے یہ ’تماشا‘ کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا جائے گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ مودی جی اور اڈانی جی کے درمیان کیا رشتہ ہے۔‘‘
Published: undefined
راہل گاندھی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے ذریعہ جواب نہ دینے اور دیگر باتیں کرنے کا مقصد بنیادی سوالوں سے توجہ ہٹانا ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے لوگوں سے کہا کہ چونکہ وہ ایوان کے رکن ہیں اس لئے پہلے وہ اپنا بیان وہاں دینا چاہتے ہیں، اس کے بعد ذرائع ابلاغ کے ساتھ ان تمام پہلوؤں کو ساجھا کریں گے۔
Published: undefined
اس سے قبل راہل گاندھی نے لندن میں دیے گئے اپنے ’جمہوریت پر حملہ‘ والے بیان پر معافی مانگنے کے بی جے پی کے مطالبے پر بھی ردعمل ظاہر کیا۔ پارلیمنٹ میں جاتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ انہوں نے ہندوستان مخالف کوئی بات نہیں کی۔ راہل گاندھی نے لوک سبھا اسپیکر سے ملاقات اور بات کرنے کا وقت بھی مانگا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز