راہل گل
نئی دہلی: مودی حکومت نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران ملک میں آکسیجن کی کمی سے کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔ یہ بیان راجیہ سبھا میں مرکزی صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر مملکت بھارت پرویر پوار نے 20 جولائی کو دیا تھا۔ حکومت نے کہا کہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی جانب سے آکسیجن کی کمی کے سبب ایک بھی موت رپورٹ درج نہیں کی گئی۔ حکومت کے اس بیان سے سیاسی حلقوں میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔
Published: undefined
کانگریس نے اس بیان پر وزیر صحت کے خلاف پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف مراعات شکنی کی تحریک پیش کی گئی۔ راجیہ سبھا کے رکن اور شیو سینا کے لیڈر سنجے راؤت نے کہا کہ وہ اس بیان سے حیران ہیں کہ آخر حکومت ایسا بیان کس طرح دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں حیران ہوں۔ آخر حکومت کے اس بیان سے ان کنبوں پر کیا گزری ہوگی، جنہوں نے اپنے عزیزوں کو آکسیجن کی قلت کے سبب کھو دیا ہے؟ اس معاملہ میں مرکزی حکومت کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے کہا کہ دہلی سمیت پورا ملک اس بات کا گواہ ہے کہ آکسیجن کی کمی کے سبب لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور حکومت کا یہ دعوی سراسر غلط ہے کہ آکسیجن کی کمی کے سبب کوئی موت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کل کو یہ کہہ دے کہ ملک میں کورونا وائرس آیا ہی نہیں، تو تعجب نہیں ہوگا۔
Published: undefined
وہیں، آکسیجن کی کمی کے سبب کوئی موت رپورٹ نہ ہونے کی ایک الگ ہی وجہ ہے۔ دراصل مئی 2020 میں جب ملک کورونا کی دوسری لہر سے نبردآزما تھا تو انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اور تحقیقی مرکز یعنی این سی ڈی آئی آر کی طرف سے ریاستوں کے لئے رہنما ہدایات جاری کی گئی تھیں، جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ ایسفیکسیا (سانس بند ہونا یا دم گھٹنا) جیسی طبی صورت حال کا ذکر موت کے اسباب کے طور پر درج نہیں کیا جائے۔
Published: undefined
نیشنل ہرالڈ سے بات کرتے ہوئے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر ایشور گیلاڈا نے کہا کہ اس طرح کی رہنما ہدایات کے پیش نظر ہی ریاستوں نے آکسیجن کی کمی سے ہونے والی اموات کو ریکارڈ نہیں کیا۔ ڈاکٹر گیلاڈا نے کہا ’’وزیر کے بیان سے طبی برادری حیران ہے، کیونکہ حکومت نے ایک طرح سے قصور ڈاکٹروں کے سر ڈال دیا۔ ملک میں اپریل اور مئی 2021 میں جو کچھ ہوا اس کی تردید نہیں کی جا سکتی۔ اس دوران سڑکوں، کاروں، ایمبولنس اور یہاں تک کہ اسپتالوں میں بھی آکسیجن کی کمی کے سبب بے شمار افراد کی جان گئی۔ لیکن تکنیکی طور پر وزیر کا یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ آکسیجن کی کمی کے سبب کسی کی موت واقع ہونے کی رپورٹ نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹروں کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔’’
Published: undefined
انہوں نے کہا، ’’جب کسی کی موت ہوتی ہے تو ہم پہلی لائن میں موت کی فوری وجہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بیماری کا نام لکھتے ہیں جو موت کی وجہ بنی۔ اگر کوئی تیسری لائن شامل کرنی ہوتی ہے تو ہم مریض کی بقیہ صورت حال کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ کورونا سے ہونے والی اموات کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں اسی طریقہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم اس میں کسی قسم کے انفراسٹرکچر یا دوا کی کمی کا ذکر موت کی وجہ کے طور پر نہیں کرتے۔ اگر کسی مریض کی موت دوا یا آکسیجن کی کمی سے ہوتی ہے تو اسے رپورٹ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ ’’وزیر کو اپنے بیان میں مزید وسعت دینی چاہئے تھی۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ اگرچہ کچھ لوگوں کی موت آکسیجن سے ہوئی ہے لیکن ہمارے سسٹم میں اس کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’وزیر کا بیان بالکل ایسا ہے جیسے کہ ایک فلم کا عنوان تھا ’نو ون کلڈ جیسیکا‘۔
Published: undefined
ڈاکٹر گیلاڈا نے کہا ’’مرکز نے ہی تو خود غیر ملکی حکومتوں اور دیگر اداروں سے آکسیجن سپلائی میں مدد طلب کی تھی، آکسیجن کنسنٹریٹر منگائے گئے تھے۔ اگر آکسیجن کی کمی نہیں تھی تو پھر حکومت کو اس کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ انہوں نے کہا کہ مریضوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی اس بارے میں ڈیٹا جمع کرنے میں مدد کر سکتی تھی، لیکن کووڈ سے ہونے والی اموات کے معاملہ میں بمشکل ہی کچھ مریضوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہوگا۔
Published: undefined
انہوں نے کہا ’’سیمپل کے طور پر کچھ لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہئے تھا تاکہ طبی سہولیات فراہم کرنے والوں کو مدد ملتی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس میں صاف ہو جاتا کہ مریض کی موت دم گھٹنے یعنی آکسیجن کی کمی کے سبب واقع ہوئی ہے۔‘‘
Published: undefined
یہ پوچھے جانے پر کی کیا رہنما ہدایات میں اموات کی رپورٹ کرنے کے نظام میں تبدیلی ہونی چاہئے، جس سے تیسری یا چوتھی لہر کے دوران اس طرح کی صورت حال سے بچا جا سکے؟ انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر ایسا ہونا چاہئے۔ ماہرین کی تنظیم نے آئی سی ایم آر سے وزیر کے بیان پر وضاحت بھی طلب کی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined