کالجیم سسٹم کو لے کر مرکزی حکومت اور عدالت عظمیٰ کے درمیان رسہ کشی میں اضافہ کے درمیان سابق جج روہنٹن ایف نریمن کا ایک اہم بیان سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ کالجیم سسٹم کی سفارشات پر حکومت کے ذریعہ جواب دینے کی مدت طے ہونی چاہیے۔ دراصل کالجیم کی تجویز پر حکومت کے جواب دینے کی فی الحال کوئی مدت طے نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے حکومت کئی ججوں کے مجوزہ ناموں پر کوئی جواب نہیں دیتی اور ججوں کی سپریم کورٹ میں تقرری اٹکی رہتی ہے۔
Published: undefined
سابق جج آر ایف نریمن کا کہنا ہے کہ ‘‘جب ایک بار پانچ یا اس سے زیادہ ججوں کی بنچ آئین کی تشریح کر دیتی ہے تو آئین کی دفعہ 144 کے تحت ایک ’اتھارٹی‘ ہونے کے ناطے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آئینی بنچ کے فیصلے کا احترام کریں۔ آپ اور میں بطور ملک کے شہری اس کی تنقید کر سکتے ہیں لیکن ایک اتھارٹی ہونے کے ناطے آپ اس فیصلے کو ماننے کے لیے مجبور ہیں، پھر چاہے وہ فیصلہ صحیح ہو یا غلط۔‘‘ روہنگٹن ایف نریمن نے یہ بیان ساتویں چیف جسٹس ایم سی چاگلا میموریل لیکچر میں اپنی تقریر کے دوران دیا۔
Published: undefined
جسٹس نریمن نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک آئینی بنچ تشکیل دینی چاہیے جو حکومت کو کالجیم کی سفارش پر جواب دینے کی مدت کار طے کرے۔ قابل ذکر ہے کہ میمورینڈم آف پروسیجر، جو کہ آئینی عدالتوں میں تقرری کے لیے 1999 میں بنایا گیا تھا، اس میں کالجیم کی سفارش پر کسی اعتراض کی حالت میں حکومت کے جواب دینے کی مدت کار طے نہیں کی گئی ہے۔
Published: undefined
جسٹس نریمن کا کہنا ہے کہ میری عاجزانہ صلاح ہے کہ اگر ایک بار کالجیم کے ذریعہ حکومت کو نام بھیج دیے جائیں اور ایک طے مدت کار تک حکومت اس پر کوئی جواب نہیں دیتی ہے تو یہ مان لیا جانا چاہیے کہ حکومت کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ جسٹس نریمن نے متنبہ کیا کہ آج جس طرح سے حکومت ناموں کو روک کر رکھتی ہے، وہ ملک میں جمہوریت کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ اگر آپ کے بے خوف اور آزاد جج نہیں ہوں گے تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز