سپریم کورٹ نے سینئر وکیل اشونی اپادھیائے کی اس عرضی کو خارج کر دیا ہے جس میں مندروں پر سے حکومتی کنٹرول ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ اشونی اپادھیائے کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ٹھیک اسی طرح ہندو مندروں کے انتظام و انصرام میں بھی حکومتی مداخلت نہ ہو جس طرح مسجدوں میں نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے اس عرضی کے تعلق سے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ عرضی سماعت کے قابل نہیں ہے۔
Published: undefined
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے اس عرضی کے تعلق سے ایڈووکیٹ اشونی اپادھیائے کو کہا کہ آپ یہ مطالبہ پارلیمنٹ یا حکومت سے کر سکتے ہیں، نہ کہ عدالت سے۔ اس طرح کے مطالبہ کو عدالت کیسے منظوری دے سکتا ہے، آپ اپنی عرضی واپس لے لیں۔ قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بھی اشونی اپادھیائے کی عرضی کی مخالفت کی ہے۔
Published: undefined
دراصل ایڈووکیٹ اشونی اپادھیائے نے مندروں پر حکومت کا کنٹرول ختم کرنے کے مطالبہ کو لے کر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ عرضی داخل کی تھی۔ انھوں نے اپنی عرضی میں مطالبہ کیا تھا کہ ہندوؤں، بودھوں، جینیوں اور سکھوں کو بھی مسلمانوں، پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ریاست کی مداخلت کے بغیر اپنے مذہبی مقامات کے مینجمنٹ کا یکساں حق ملے۔ لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عرضی ناقابل سماعت ہے۔
Published: undefined
اس معاملے میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ عرضی دہندہ اس تعلق سے ریپریزنٹیشن دے سکتے ہیں، کیونکہ عرضی میں حکومت کو ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اشونی اپادھیائے نے کہا کہ اس ایشو کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ کالکا جی مندر کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے، لیکن جامع مسجد کا نہیں۔ یہی بنیادی ایشو ہے۔ حالانکہ جب چیف جسٹس نے اس عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا تو اشونی اپادھیائے نے اپنی عرضی واپس لے لی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز