گوا میں بی جے پی 10 سال کی اقتدار مخالف لہر کو روکنے میں کامیاب رہی اور 19 سیٹیں اپنی جھولی میں ڈال لیں۔ آزاد امیدواروں اور ایم جی پی کی ممکنہ مدد کے سہارے پارٹی اقتدار میں واپسی کی راہ تلاش رہی ہے۔ ووٹوں کی تقسیم کے تعلق سے بات کی جائے تو میدان میں ایسی کئی جماعتیں موجود تھیں جن کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ اپوزیشن کی جانب سے بھرپور مہم چلانے کے باوجود حکمراں جماعت 33 فیصد ووٹوں کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب رہی۔ سنکیلیم حلقہ انتخاب سے بی جے پی کے حق میں توقعات کے مطابق فرق سے جیت حاصل نہ ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ ڈاکٹر پرمود ساونت مضبوط لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
Published: undefined
نتائج پر نظر ڈالیں تو معلوم چلتا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے جو بھی سیٹیں جیتی ہیں وہاں بڑا فرق رہا جبکہ گوا کی سیاست میں نئی پارٹیوں عام آدمی پارٹی اور ’ریوالیوشنری گوانز پارٹی‘ نے بہت ہی کم فرق سے جیت حاصل کی ہے۔
گوا کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر رماکانت کھالیپ نے ووٹروں کی فیصلہ کن ووٹنگ کو کانگریس کی شکست کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا ’’کئی مقامات پر ووٹوں کی تقسیم ہوئی ہے لیکن کانگریس کو یہ سمجھنے کے لیے خود کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس کے اقدامات اسے اقتدار میں لانے میں کیوں ناکام رہے۔ کچھ غلطیوں میں امیدواروں کا انتخاب، زمینی سطح پر پارٹی کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔‘‘
Published: undefined
سیاسی تجزیہ کار اور سابق ایم ایل اے رادھاراؤ گریسیاس نے نشاندہی کی کہ نئے مفتوح پرتگالی علاقوں مثلاً پرنیم، بیچولم، ساٹاری، پونڈا وغیرہ میں رہنے والے عوام کے پاس سیاسی جماعتوں کے معاملہ میں متبادل موجود تھا۔ گریسیاس نے کہا، ’’عوام نے اگر بی جے پی نہیں تو ایم جی پی یا کانگریس کو ووٹ دیا لیکن جنوبی گوا میں کیتھولک اکثریتی قدیمی مفتوح علاقوں کے لیے بی جے پی اور ایم جی پی مختلف وجوہات کی بنا پر قابل قبول نہیں تھیں۔ یہاں کانگریس ناکام ہونے کے باوجود عوام کے لیے واحد انتخاب تھی۔ ٹی ایم سی اور عام آدمی پارٹی کی موجودگی نے ووٹر کو ایک متبادل فراہم کیا۔ مستقبل میں اس کی وجہ سے کانگریس کو جنوبی گوا کے سالسیٹ تعلقہ میں بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے، جبکہ اسے پارٹی کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
ماہر تعلیم اور سیاسی مبصر ڈاکٹر منوج کامت کہتے ہیں کہ گوا کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کانگریس نے بی جے پی مخالف ووٹ شیئر کو حاصل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا اور اس حوالہ سے حکمت عملی کا فقدان نظر آیا۔ انہوں نے کہا "اگر آپ حالات پر نظر ڈالیں تو بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کا ووٹنگ فیصد مستقل رہا ہے لیکن کانگریس کا ووٹ فیصد کم ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ کانگریس ان چند حلقوں میں جارحانہ انداز میں تشہیر چلانے میں ناکام رہی جہاں ہار جیت کا فرق بہت کم رہا ہے۔ پارٹی کو زیادہ جارحانہ ہونا چاہیے تھا اور اپنے بیانیے کو پوری شدت سے عوام تک پہنچانا چاہئے تھا۔‘‘
Published: undefined
ڈاکٹر کامت نے کہا کہ مائیکل لوبو کے بی جے پی سے کانگریس میں شامل ہونے کی وجہ سے بھلے ہی باردیز میں پارٹی کی سیٹیوں میں اضافہ ہو گیا لیکن کانگریس کو اپنے گڑھ سالسیٹ میں عام آدمی پارٹی اور ٹی ایم سی کی وجہ سے ہونے والی تقسیم کے سبب ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا ’’دوسری طرف عام آدمی پارٹی نے سالسیٹ میں کانگریس کے ووٹوں کو تقسیم کیا اور دو سیٹوں پر جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن پارٹی نے اپنے کنوینر راہل مہامبرے کے علاقہ شمالی گوا پر توجہ مرکوز رکھی اور جنوبی گوا کے کیتھولک اکثریتی علاقوں سے دور رہی جس کی وجہ سے اسے ان علاقوں میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر کامت کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے اپنی زمینی سطح پر مخصوص حکمت عملی کے دم پر ان انتخابات میں جیت حاصل کی ہے اور اسی وجہ سے کانگریس کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔
Published: undefined
گوا یونیورسٹی سے وابستہ گوا بزنس اسکول کے پروفیسر نیلیش بورڈے کا کہنا ہے کہ نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے کانگریس یا بی جے پی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا "میرا ماننا ہے کہ کانگریس زمین پر کھیلنے کے بجائے دماغی کھیل کھیلنے میں زیادہ ملوث رہی اور یہی بات اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ بھی لے بی جے پی جیت رہی ہے لیکن اسے صرف 33 فیصد لوگوں نے ہی پسند کیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گوا کے کے 67 فیصد لوگوں نے بی جے پی کو ناپسند کی ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ 67 فیصد لوگ متحد نہیں ہو سکے اور 2، 4 اور 6 فیصد میں تقسیم ہو گئے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز