رافیل معاہدہ پر ہندوستان کے بعد اب فرانس میں بھی بدعنوانی کی باتیں سامنے آنے لگی ہیں۔ کانگریس کے ذریعہ مودی حکومت پر اس تعلق سے لگاتار الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں اور معاہدہ کی جانچ کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے، لیکن اب ایک فرانسیسی این جی او نے اس معامدہ میں ’دسالٹ ایویشن‘ پر بدعنوانی کا الزام عائد کر کے ایک نیا ہنگامہ شروع کر دیا ہے۔ ’شیرپا‘ نامی فرانسیسی این جی او نے اس معاملے میں پبلک پروزیکیوٹر آفس میں شکایت درج کرائی ہے۔ این جی او نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ’’ہندوستان کے ساتھ ہوئے فرانس کے 36 رافیل طیارہ معاہدہ میں جو اصول اپنائے گئے ہیں ان کے بارے میں وضاحت پیش کی جائے۔‘‘
این جی او نے اپنی شکایت میں یہ بھی پوچھا ہے کہ دسالٹ ایویشن نے کس بنیاد پر ہندوستانی کمپنی ریلائنس کو اس معاہدہ میں شریک کار کے طور پر منتخب کیاہے۔ اس تعلق سے بھی وضاحت طلب کی گئی ہے۔ این جی او کے بانی ولیم بورڈن کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ میں جو کچھ بھی ہوا وہ سنگین ہے۔ این جی او نے کہا ہے کہ اسے امید ہے کہ فرانس کا نیشنل پبلک پروزیکیوٹر آفس سبھی چیزوں کی سنجیدگی سے جانچ کر ممکنہ بدعنوانی اور نامناسب فائدے کے بارے میں پتہ لگائے گا۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ ’شیرپا‘ نے اپنی شکایت میں جو باتیں کہی ہیں، وہی شکایت کانگریس لگاتار کرتی آ رہی ہے۔ کانگریس یہ پوچھ رہی ہے کہ رافیل معاہدہ سے ایچ اے ایل کو اچانک ہٹا کر ریلائنس کو پارٹنر کیوں منتخب کیا گیا۔ کانگریس کا سوال ہے کہ جس کمپنی کو طیارہ بنانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے اسے دسالٹ نے پارٹنر کیوں منتخب کیا؟ کانگریس کا یہ بھی سوال ہے کہ یو پی اے کے دوران 126 طیاروں کا معاہدہ ہوا تھا۔ پارٹی کا سوال ہے کہ مودی حکومت نے اچانک اس معاہدے کو کیوں بدلا اور 126 طیاروں کی جگہ 36 طیارہ کا معاہدہ کیوں کیا گیا؟ کانگریس مودی حکومت سے سوال پوچھ رہی ہے کہ جب طیارہ میں سبھی تکنیک ویسی ہی ہیں جیسی کہ یو پی اے حکومت کے دوران تھی، تو پھر مودی حکومت طیارہ کے لیے زیادہ پیسے کیوں ادا کر رہی ہے۔
فی الحال رافیل معاہدہ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس معاملے میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے بھی مودی حکومت سے کئی تلخ سوال پوچھے ہیں جس کا حکومت سیدھے طور پر جواب نہیں دے پائی ہے۔ اس درمیان فرانس کے نیشنل پبلک پروزیکیوٹر آفس میں اس معاملے کا جانا کانگریس کے الزامات کو تقویت عطا کرتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز