اسلام آباد: پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (رٹائرڈ) پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
عدالت میں سماعت کے بعد 3 رکنی بنچ نے 2 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت کا حکم دے دیا۔ اگرچہ خصوصی عدالت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ کیس کا فیصلہ آج سنا دیں گے تاہم اس کے باوجود حکومتی پراسیکیوٹر ایڈووکیٹ علی ضیا باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے آج 3 درخواستیں دائر کی ہیں۔ حکومت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست دی گئی اور کہا گیا کہ حکومت شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانا چاہتی ہے۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں کیونکہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آگئیں۔ ساتھ ہی جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحیقیقات ہوسکتی ہے، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی لگانے کو کہا تھا۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا ہے، ساتھ ہی جسٹس شاہد کریم نے یہ ریمارکس دئیے کہ مشرف کے شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے۔ دوران سماعت جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کے لیے 2 ہفتے کی مہلت دی گئی تھی، اس پر استغاثہ نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیمی فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟ 3 افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کورکمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی، لہٰذا عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
جسٹس نذر علی اکبر نے ریمارکس دئیے کہ چارج شیٹ میں ترمیم کے لیے کوئی باضابطہ درخواست ہی نہیں ملی، عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آسکتی، اسی کے ساتھ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے۔ علاوہ ازیں جسٹس نذر نے یہ کہا کہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ عدالت سے معذرت خواہ ہیں، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
دوران سماعت عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم نے پوچھا کہ سکریٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ میں ترمیم کرسکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے، حکومت کارروائی میں تاخیر نہیں چاہتی تو شریک ملزمان کے خلاف نئی درخواست دے سکتی ہے۔ اس موقع پر وکیل استغاثہ منیر بھٹی کا کہنا تھا کہ سابق پراسیکیوٹرز نے عدالت سے حقائق کو چھپایا، جس پر جسٹس نذر نے پوچھا کہ سابق پراسیکیوٹرز کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی؟
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
ساتھ ہی جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کے پاس 15 دن کا وقت تھا کہ درخواستیں دائر کرے، وفاقی حکومت سے متعلق سپریم کورٹ مصطفی ایمپیکس کیس میں ہدایات جاری کر چکی ہے، سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سکریٹری داخلہ نہیں وفاقی کابینہ فیصلے کر سکتی ہے۔ عدالت میں وکیل استغاثہ نے بتایا کہ ایک درخواست چارج شیٹ میں ترمیم کی ہے، ملزم نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کیا، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ دفاع کی درخواست ہے، اس درخواست پر فیصلہ آچکا ہے۔ اسی دوران جسٹس شاہد نے پوچھا کہ آپ اس چارج شیٹ میں کیوں ترمیم کرنا چاہتے ہیں، آپ ان لوگوں کو جن پر مددگار ہونے کا الزام ہے ان کے خلاف نئی شکایت کیوں نہیں دائر کرتے، آپ کیس میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
جس پر جواب دیتے ہوئے وکیل استغاثہ نے کہا کہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے جبکہ چارج شیٹ میں ترمیم سے ٹرائل میں تاخیر نہیں ہوگی، اگر پہلے مرکزی ملزم کا ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے تو جو مددگار تھے ان کا کیا ہوگا، اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے، اس معاملے میں تمام چیزوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ عدالت میں دوران سماعت جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو علم ہے کہ شہادت ہوچکی ہے، ان سہولت کاروں کے خلاف کیا ثبوت ہیں، جس پر جواب دیا گیا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ کسی وقت بھی شکایت میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، جن کو آپ شامل کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا تحقیقات ہوئیں۔ اس موقع پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ استغاثہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے، جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف تحقیقاتی ٹیم کے 2 ارکان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی بھی کی ہے۔ پراسیکیوٹر علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا کہ ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہوجائے، عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملزم کا دفعہ 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ وہ بات کر رہے ہیں جو ملزم کے دلائل ہونے چاہئیں۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
اسی دوران جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ کیا آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں، اگر آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹم سے ہٹ جائیں، جس پر علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا میری تیاری نہیں، اس پر جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیئے کہ پھر آپ بیٹھ جائیں اور وکیل صفائی کو بولنے کا موقع دیں۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
تاہم علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں، ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے اس کے تحت کارروائی چلانی ہے۔ اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر اور رضا بشیر پیش ہوئے، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سلمان صفدر صرف رضا بشیر کی معاونت کرسکتے ہیں۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
اسی دوران سلمان صفدر روسٹرم پر آئے تو جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں آپ کی ضرورت نہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ آپ نہ استغاثہ کو سن رہے ہیں اور نہ دفاع کو، پھر کیسے کیس کو چلائیں گے۔ وکیل کی بات پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالت مفرور شخص کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتی، ساتھ ہی جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ضد نہ کریں۔ بعد ازاں رضا بشیر نے عدالت کو بتایا کہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو منصفانہ ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، پرویز مشرف 6 مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے ہیں۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
اس پر رضا بشیر نے کہا کہ پرویز مشرف کو دفاع کا حق ملنا چاہیے، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ اور آپ دونوں ہی مشرف کا دفاع کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالت نے کہا تھا مشرف کو جب چاہیں پیش کردیں، جس پر رضا بشیر نے کہا کہ پرویز مشرف کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیش ہوسکیں، لہٰذا دفعہ 342 کے بیان کے بغیر مشرف کا دفاع کیسے کروں؟
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
اس پر جسٹس وقار نے کہا کہ آپ دفاع نہیں کرسکتے اس کا مطلب ہے آپ کے دلائل مکمل ہوگئے، جس پر رضا بشیر نے کہا کہ عدالت 15 سے 20 دن کا وقت دے پرویز مشرف بیان ریکارڈ کرائیں گے۔ بعد ازاں جسٹس وقار نے ریمارکس دیئے کہ 342 کے بیان کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست کا جائزہ لیں گے، جس کے بعد ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبرز میں چلے گئے۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
بعد ازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ خصوصی عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا گیا، جس میں بنچ کے 2 ججوں نے سزائے موت جبکہ ایک نے اس پر اعتراض کیا۔ عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کے مرتکب قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا۔ علاوہ ازیں سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے مین سنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے معاملے میں 20 نومبر 2013 کو خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی اور اس عدالت کی 6 مرتبہ تشکیل نو ہوئی تھی۔ عدالت کی جانب سے اسی کیس میں 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ 19 جون 2016 کو مشرف کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Dec 2019, 2:11 PM IST
تصویر: پریس ریلیز