بابری مسجد معاملہ ، رافیل معاملہ ،آسام میں این آر سی معاملہ اور چیف جسٹس کو آرٹی آئی میں رکھنے جیسے اہم معاملوںمیں فیصلہ سنانے والے ملک کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگئی اب راجیہ سبھا کے رکن ہو جائیں گے۔ واضح رہے رنجن گوگئی گزشتہ سال 17نومبر کو ریٹائر ہوئے تھے۔ریٹائرمنٹ سے ٹھیک پہلےانہوں نے ایک لمبے وقت سے زیر التوا بابری مسجد تنازعہ کا فیصلہ سنایاتھا اور رام مندر تعمیر کے لئے راستہ صاف کیا تھا۔ اس فیصلہ پرکئی حلقوں کی جانب سے سوال بھی کھڑے ہوئے تھے۔
Published: undefined
رنجن گوگئی کی قیادت والی بینچ نے بابری مسجد پر فیصلہ سناتے ہوئے مانا تھا کہ مسجد کو کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنایا گیاتھا اور مسجد توڑنے کے عمل کومجرمانہ عمل قرار دیا تھا لیکن ایودھیا کی وہ ساری زمین جس پرجھگڑا تھا وہ زمین مندر کے نام کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔اس فیصلہ نے سب کو حیرت میں ڈال دیا تھالیکن اب ان کوراجیہ سبھا میں بھیجنے کے حکومت کے فیصلہ نے بھی سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کانگریس کے رہنما اور کرناٹک کے سابق وزیر اعلی نے حکومت کے اس فیصلہ پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس سے عدلیہ اور مستقبل کے چیف جسٹس کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔
Published: undefined
رنجن گوگئی کی قیادت والی بینچ نے ہی رافیل جہاز سودے معاملہ میں مودی حکومت کو کلین چٹ دی تھی اور کانگریس رہنما راہل گاندھی کو سپریم کورٹ کے بیان کو غلط طرح سے پیش کرنے کے لئے انتباہ کیا تھا۔ آج پورےملک میں جس این آر سی کو لیکر ہنگامہ مچاہوا ہے اور اس کی شروعات آسام میں ہوئی تھی اور اس این آر سی کی نگرانی جسٹس گوگئی کی قیادت میں ہی ہوئی تھی۔
Published: undefined
رنجن گوگئی سپریم کورٹ کے ان سینئر چار ججوں میں بھی شامل تھے جنہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے کام کرنے کے طریقوں پر سوال اٹھائے تھےاور ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے ججوں نے پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کے کام کاج پر سوال اٹھائےتھے۔
Published: undefined
ملک کے چیف جسٹس بننےکے بعد رنجن گوگئی تنازعات کا بھی شکاررہے۔ ان پرسال 2019 میں سپریم کورٹ کی ایک خاتون ملازم نےجسمانی استحصال کاالزام لگایا تھا جبکہ بعد میں اس وقت جسٹس بوبڈے کی قیادت میں بنی کمیٹی نے انہیں کلین چٹ دے دی۔رنجن گوگئی کے بعد ہی جسٹس بوبڈے ملک کے چیف جسٹس بنے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز