مرکز کی مودی حکومت نے جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ ہونے کی خبروں کی تردید کی ہے اور اس طرح کی خبروں کو غلط فہمی پیدا کرنے والا بتایا ہے۔ لیکن دی نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں شائع بی بی سی کی تصویروں میں دکھایا گیا ہے کہ کشمیر کا درجہ بدلے جانے کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارچ کر رہے ہیں۔ سڑکیں مظاہرین سے بھری ہوئی ہیں اور کچھ سڑکوں پر اینٹ اور پتھر بکھرے پڑے ہیں، جسے مظاہرین نے پھینکے ہیں۔ بی بی سی اردو نے 10 اگست کو ایک ویڈیو نشر کیا جس میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے گئے ہیں۔ حکومت نے اس سے انکار کیا ہے، لیکن بی بی سی اپنی رپورٹ پر قائم ہے۔
Published: 13 Aug 2019, 12:10 PM IST
مرکزی وزارت داخلہ نے بھی رائٹر کی ایک رپورٹ کو پوری طرح سے غلط ٹھہرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ جمعہ کو جب سری نگر میں پابندیوں میں ڈھیل دی گئی تو 10 ہزار لوگ احتجاجی مظاہرہ کے لیے سڑک پر اتر آئے تھے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ "رائٹر کے ذریعہ جاری یہ رپورٹ دراصل اصل ڈان میں شائع ہوئی جس میں سری نگر میں گزشتہ جمعہ کو 10 ہزار لوگوں کے احتجاجی مظاہرے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔"
Published: 13 Aug 2019, 12:10 PM IST
وزارت داخلہ نے ایک ٹوئٹ میں اس تعلق سے کہا کہ "یہ پوری طرح غلط ہے۔ سری نگر/بارہمولہ میں کچھ چھوٹے موٹے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں جس میں 20 سے زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔"
Published: 13 Aug 2019, 12:10 PM IST
واضح رہے کہ نیو یارک ٹائمز نے جمعہ کو وادی کشمیر میں سینکڑوں مردوں اور خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دکھایا ہے، اور سری نگر میں ایک سڑک پوری طرح اینٹ اور پتھروں سے بھری پڑی ہے۔ جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے دکھایا ہے کہ پیر کو عید کی نماز کے بعد سڑک مظاہرین سے بھری ہوئی تھی۔
Published: 13 Aug 2019, 12:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Aug 2019, 12:10 PM IST