دہلی پولس آج بے شک بدعنوانی کے دلدل میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے لیکن اس کی تاریخ سنہری رہی ہے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ دہلی کے کوتوال کی ایمانداری کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ کوتوال کی ایمانداری کے قصے کا دہلی پولس نے اپنی تاریخ میں ترجیحی طور پر تذکرہ کیا ہے لیکن آج کے دور میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی جس کا موازنہ گزرے وقت کے کوتوال سے کی جا سکے۔ آج تو عالم یہ ہے کہ پولس میں موجود بدعنوانی سے لوگ پریشان ہیں۔ پولس والے ہی جبراً وصولی اور لوٹ تک کی واردات میں شامل پائے جاتے ہیں۔ اہم عہدوں پر ایمانداری، سینئریٹی، اہلیت کو درکنار کر زیادہ تر ’جگاڑو‘ تعینات کیے جاتے ہیں۔ وزیر یا کمشنر کا خیر خواہ ہونا ہی اہم عہدہ پانے کی واحد اہلیت ہے۔ یہ سلسلہ کمشنر سے شروع ہو کر اسپیشل کمشنر، جوائنٹ پولس کمشنر، ایس ایچ او سے لے کر بیٹ کانسٹیبل کی تعیناتی تک جاتا ہے۔ ایمانداری کو درکنار کرنے سے ہی پولس کی شبیہ لگاتار خراب ہو رہی ہے۔
دہلی میں پولس ایڈمنسٹریشن کی شروعات تقریباً آٹھ سو سال پرانی تصور کی جاتی ہے۔ اس وقت دہلی کی سیکورٹی اور نظامِ قانون کی ذمہ داری شہر کوتوال کی ہوا کرتی تھی۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے دادا گنگا دھر نہرو دہلی کے آخری کوتوال تھے۔ اس وقت کے شہر کوتوال سے آج ملک کی سب سے زیادہ وسائل یافتہ دہلی پولس نے طویل دوری طے کی ہے۔
Published: 16 Feb 2019, 9:10 PM IST
پہلا کوتوال:
دہلی کے پہلے کوتوال ملک الامراء فخرالدین تھے۔ وہ سنہ 1237ء میں 40 کی عمر میں کوتوال بنے۔ کوتوال کے ساتھ انھیں نائب غبت (ریجنٹ کی غیر حاضری میں) بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اپنی ایمانداری کے سبب ہی وہ تین سلطانوں کے دور میں طویل عرصہ تک اس عہدہ پر رہے۔ آج بھلے ہی دہلی پولس کی شبیہ داغدار ہے، پہلے کے کوتوالوں کی ایمانداری کے کئی قصے تاریخ میں درج ہیں۔ ایک بار ترکی کے کچھ امراء کی ملکیت سلطان بلبن کے حکم سے ضبط کر لی گئی۔ ان لوگوں نے سلطان کے حکم کو بدلنے کے لیے کوتوال فخرالدین کو رشوت کی پیشکش کی۔ کوتوال نے کہا کہ ’’اگر میں رشوت لے لوں گا تو میری بات کا کوئی وزن نہیں رہ جائے گا۔‘‘ کوتوال کا پولس ہیڈ کوارٹر ان دنوں قلع رائے پتھورا یعنی آج کی مہرولی میں تھا۔ تاریخ میں اس کے بعد کوتوال ملک علاء الملک کا نام درج ہے جسے سلطان علاء الدین خلجی نے 1297 میں کوتوال تعینات کیا تھا۔ سلطان خلجی نے ایک بار َملک کے بارے میں کہا تھا کہ ان کو کوتوال مقرر کر رہا ہوں جب کہ یہ وزیر کے عہدہ کا اہل ہے۔ تاریخ میں تذکرہ ہے کہ ایک بار جنگ کو جاتے وقت سلطان خلجی کوتوال ملک کو شہر کی چابی سونپ گئے تھے۔ سلطان نے کوتوال سے کہا تھا کہ جنگ میں جیتنے والے فاتح کو وہ یہ چابی سونپ دیں اور اسی طرح وفاداری سے اس کے ساتھ بھی کام کریں۔
مغل بادشاہ شاہجہاں نے 1648 میں دہلی کو اپنی راجدھانی بنانے کے ساتھ ہی غضنفر خان کو نئے شہر شاہجہان آباد کا پہلا کوتوال بنایا تھا۔ غضنفر خان کو بعد میں کوتوال کے ساتھ ہی میر آتش (چیف آف آرٹیلری) بھی بنا دیا گیا۔
کوتوال نظام کا خاتمہ:
1857 کی بغاوت کے بعد انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا اور اسی کےساتھ دہلی میں کوتوال نظام بھی ختم ہو گیا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں اس وقت پنڈت جواہر لال نہرو کے دادا اور پنڈت موتی لال نہرو کے والد پنڈت گنگا دھر نہرو دہلی کے آخری کوتوال تھے۔ انگریزوں نے دہلی میں قتل عام کیا تو گنگا دھر نہرو اپنی بیوی جیو رانی اور چار بیٹوں کے ساتھ آگرہ چلے گئے۔ فروری 1861 میں آگرہ میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ گنگا دھر نہرو کے انتقال کے تین مہینے بعد موتی لال نہرو کی پیدائش ہوئی تھی۔
آئین اکبری کے مطابق جب شاہی دربار لگا ہوتا تھا تب کوتوال کو بھی دربار میں موجود رہنا پڑتا تھا۔ وہ روزانہ شہر کی سرگرمیوں کی جانکاری چوکیداروں اور اپنے مخبروں کے ذریعہ حاصل کرتا تھا۔
انگریزوں نے پولس محکمہ کو دی منظم شکل:
1857 میں انگریزوں نے پولس ڈپارٹمنٹ کو منظم شکل دی۔ اس وقت دہلی پنجاب کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ 1912 میں راجدھانی بننے کے بعد تک بھی دہلی میں پولس نظام پنجاب پولس کی دیکھ ریکھ میں چلتا رہا۔ اسی وقت دہلی کا پہلا چیف کمشنر مقرر کیا گیا تھا جسے پولس انسپکٹر جنرل یعنی آئی جی کے اختیارات دئیے گئے تھے۔ اس کا صدر دفتر انبالہ میں تھا۔
1946 میں از سر نو تشکیل:
دہلی پولس کی از سر نو تشکیل 1946 میں کی گئی اور پولس والوں کی تعداد دوگنی کر دی گئی۔ 1948 میں دہلی میں پہلا پولس انسپکٹر جنرل ڈی ڈبلیو مہرا کو مقرر کیا گیا۔ ان کی تقرری 16 فروری کو کی گئی تھی اس لیے 16 فروری کو ہی دہلی پولس کا یوم تاسیس منایا جاتا ہے۔ یکم جولائی 1978 سے دہلی میں پولس کمشنر سسٹم نافذ کر دیا گیا۔ اس وقت دہلی پولس اہلکاروں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ ہے اور تھانوں کی تعداد 202 ہے۔
Published: 16 Feb 2019, 9:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Feb 2019, 9:10 PM IST