محمد ممتاز کو آج بھی اپنی جان کا ڈر لگا رہتا ہے۔ گزشتہ سال 23 سے 27 فروری کے درمیان شمال مشرقی دہلی کے کھجوری خاص واقع شیر پور چوک پر ممتاز کے ریستوران کو مشتعل بھیڑ نے آگ لگا دی تھی۔ الزام ہے کہ اس بھیڑ میں کراول نگر کے رکن اسمبلی موہن بشٹ کے حامی شامل تھے۔ فساد ٹھنڈا پڑنے کے بعد بھی علاقے کے لوگوں کو مقدمے واپس لینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تو ڈر سے مقدمے واپس لے بھی لیے ہیں۔
Published: undefined
ممتاز بتاتے ہیں کہ ’’میں کھجوری خاص کی گلی نمبر 5 سے مشکل سے ہی نکلتا ہوں۔ گھر کے لوگوں کو پتہ رہتا ہے کہ میں کہاں ہوں۔ مجھے کئی بار بشٹ اور دوسرے 15 لوگوں کے خلاف دائر مقدمہ واپس لینے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ میں نے مقدمہ واپس نہیں لیا ہے تو مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ ہم میں سے کئی نے تو صرف انصاف کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا ہے۔‘‘ گزشتہ سال فساد میں ممتاز کا گھر بھی جلا دیا گیا تھا۔ ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن اور برائٹ فیوچر نام کے این جی او نے اس کا گھر دوبارہ بنوایا ہے۔
Published: undefined
ممتاز اس دن کو یاد کرتے ہوئے کانپ جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھیڑ نے ان کے ’چکن کارنر‘ کو آگ لگا دی تھی۔ ممتاز کے پاس بشٹ کا ویڈیو ہے جس میں نظر آ رہا ہے کہ کس طرح بشٹ بھیڑ کو اکسا رہے ہیں۔ اس سڑک پر ممتاز کی پہلی دکان تھی جسے بھیڑ نے نشانہ بنایا۔ ممتاز کہتے ہیں کہ ’’انھوں نے کاؤنٹر میں رکھے 90 ہزار روپے لوٹ لیے تھے۔‘‘ وہ اور اس کی دکان پر کام کرنے والے ملازم نے کسی طرح بھاگ کر جان بچائی تھی۔ فساد ختم ہونے کے بعد اس کی دکان کے مالک نے ممتاز کی ہی جگہ پر ’پردھان چکن کارنر‘ کے نام سے اپنا ہوٹل کھول لیا ہے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ دہلی فسادات میں 53 لوگوں کی جان گئی تھی اور 581 زخمی ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں 1818 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تمام گاڑیوں، دکانوں اور عمارتوں اور گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ فساد کے سلسلے میں پولس نے 755 ایف آئی آر درج کی تھیں۔ ان میں سے 407 پر اب تک جانچ نہیں ہوئی ہے جب کہ 348 معاملوں میں چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے۔
Published: undefined
کھجوری خاص کی گلی نمبر 4 اور 5 میں مسلمانوں کے تقریباً 40 گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی گئی تھی۔ انہی میں ممتاز کا گھر بھی تھا۔ یہاں کے لوگوں نے 30 معاملے درج کرائے تھے، جن میں سے 25 معاملے واپس لے لیے گئے ہیں۔ لوگوں کا الزام ہے کہ شروعات میں تو پولس نے معاملے درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اب بھی پولس کسی کو بھی اٹھا لیتی ہے اور فسادات کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتی ہے۔ اس سے علاقے کے مسلمانوں میں ڈر بیٹھ گیا ہے۔ ممتاز کہتے ہیں کہ ’’سارے معاملے فسادات کے بعد درج کرائے گئے تھے، لیکن پولس اب بھی نامزد لوگوں کے بارے میں ہم سے ہی پوچھ تاچھ کرتی ہے۔‘‘
Published: undefined
مقامی باشندے ہندوتوا گروپ سے منسلک لیڈروں کے ذریعہ ڈرانے دھمکانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ چاہتے ہیں ہم تھانے جائیں، لیکن ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم وہاں گئے تو ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ا سلیے ہم ڈر کے مارے صرف فون پر ہی پولس سے بات کر پاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ممتاز نے اپنی ایف آئی آر میں 24 مقامی لوگوں کے نام دیے ہیں۔ وہیں محمد حدیث نے بی جے پی کے سات لیڈروں کے نام شامل کرائے ہیں۔ اسی طرح مزید لوگوں نے بھی نامزد ایف آئی آر کرائی ہیں۔ لیکن اب وہ ڈر کے مارے کہیں نہیں جاتے، اور جانا ضروری ہو تو بہت سے لوگوں کو بتا کر جاتے ہیں کہ کہاں جا رہے ہیں۔ کیونکہ اگر کچھ ہو گیا تو لوگوں کو جانکاری تو رہے گی۔
Published: undefined
اس دوران پولس کی چارج شیٹ میں بی جے پی رکن اسمبلی یا کسی دیگر لیڈر کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے متاثرین میں فکر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کھجوری خاص میں رہنے والے مشاہد کہتے ہیں کہ ’’لوکل پولس مزید جانکاری کے نام پر ہمیں لگاتار فون کرتی ہے۔ آخر ہم کتنی بار جانکاری دیں گے۔‘‘
Published: undefined
زیادہ تر شکایتوں میں کہا گیا ہے کہ پولس نے ہندو فسادیوں کے خلاف معاملہ درج کرنے میں آنا کانی کی۔ ایک مقامی باشندہ کا کہنا ہے کہ ’’جب تک بی جے پی کی حکومت ہے، ہمارے معاملوں میں کوئی انصاف نہیں ہوگا اور نہ ہی جانچ آگے بڑھے گی۔ مقامی رکن اسمبلی بھی ہم سے ملنے نہیں آئے ہیں۔‘‘
Published: undefined
مجموعی طور پر حالات ایسے ہیں کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی لوگ سہمے ہوئے ہیں اور انھیں انصاف کی امید بھی کم ہی ہے۔ بہت سے متاثرین اور فسادات کے چشم دید تو اس حد تک ڈرے ہوئے ہیں کہ وہ پولس کے پاس جا کر آپ بیتی سنانے میں بھی ڈرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منھ کھولتے ہی ان کی جان خطرے میں پڑھ جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined